1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حماس اسرائیل تنازعہ: عرب ممالک کہاں کھڑے ہیں؟

8 اگست 2024

بعض عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پس پردہ بہت ہی قریبی تعلقات ہیں، جبکہ کچھ ریاستوں میں ایسے ایرانی حمایت یافتہ گروہ بھی سرگرم ہیں، جو خود کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف 'مزاحمت کا محور' قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4jDvw
اردن میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے
اردن کے دارالحکومت عمان میں مقامی لوگ اپنی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے، جن کا مطالبہ تھا کہ اردن اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرےتصویر: Alaa Al Sukhni/REUTERS

اردن کی متوازن پالیسی

اردن میں آئینی بادشاہت ہے اور یہ عرب ملک اپنے رشتوں میں نازک توازن کی وکالت کرتا ہے۔

اردن میں پانچ میں سے ایک فرد فلسطینی نژاد ہے اور خود ملکہ اردن بھی فلسطینی نژاد ہیں۔ اس ملک میں فلسطینی ریاست اور مساوی حقوق کی خواہش بیشتر مقامی لوگوں کے دلوں کے قریب ہے۔ ملک کے حکمران اکثر اس معاملے پر آواز بھی اٹھاتے ہیں۔

کیا ایران اسرائیل پر دوبارہ حملہ کر سکتا ہے؟

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں کی سمجھ اور احساس سے پرے، اردن بھی فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور امریکہ سے قریب ہے۔ سن 1994 میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے تھے اور پردے کے پیچھے دونوں ملک سلامتی سے متعلق امور پر مل کر کام کرتے ہیں، جیسے کہ یروشلم میں مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا کام۔

اسرائیل کی خان یونس میں کارروائی مکمل، سینکڑوں لاشیں برآمد

سن 2021 میں امریکہ اور اردن نے ایک دفاعی تعاون کا معاہدہ کیا جس کے تحت امریکی افواج، گاڑیاں اور طیارے آزادانہ طور پر اردن میں داخل ہو سکتے ہیں اور جہاں چاہے انہیں جانے کی آزادی بھی ہے۔

فلسطینیوں کے خلاف تشدد: اسرائیلی شہریوں پر امریکی پابندیاں

رواں برس اپریل میں جب اردن نے مبینہ طور پر اسرائیل کی طرف اپنی فضائی حدود سے گزرنے والے ایرانی میزائلوں کو مار گرانے میں مدد کی، تو بہت سے مقامی عرب لوگوں نے اسے دھوکہ اور فریب کے طور پر دیکھا۔

غزہ میں مزید ہلاکتیں، صحت کی سہولیات ’بریکنگ پوائنٹ‘ پر

اردن کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات برقرار ہیں، لیکن یہ سرد مہری کا شکار ہیں۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی کا حالیہ دورہ ایران خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات چیت کے لیے ایک نادر موقع تھا۔

مصر: ذاتی مفاد اور سفارت کاری

عبدالفتاح السیسی کی سربراہی میں آمرانہ حکومت کے ماتحت پڑوسی ملک مصر کو بھی اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔

فلسطینی مہاجر کیمپ پر اسرائیلی حملہ، کم از کم 71 افراد ہلاک

ایک تھنک ٹینک 'انٹرنیشنل کرائسس گروپ' کی مئی کی رپورٹ میں کہا گیا  کہ سن 1979 میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد سے، "مصر نے فلسطینی کاز کی حمایت کے ساتھ ہی اپنے قومی مفادات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، خاص طور پر سینائی میں عدم تحفظ سے متعلق۔"

اسرائیل کا شمالی غزہ سٹی سے سب فلسطینیوں کو نکل جانے کا حکم

اس رپورٹ کے مطابق، "ٹھوس طور پر اس کوشش کا مطلب غزہ میں لوگوں کی حالتِ زار کی براہ راست ذمہ داری کو مسترد کرنا ہے۔ دوسری طرف دو ریاستی حل پر مبنی سفارتی تصفیہ تک پہنچنے کی کوششوں کی حمایت بھی کرنا ہے۔"

صدر عبدالفتاح السیسی کے پوسٹرز
مصری حکومت نے پہلے ایک اسلامی تنظیم اور اپنی حکمرانی کے لیے خطرہ سمجھ کر حماس کی مخالفت کی تھی، لیکن حال ہی میں اس رویے میں نرمی آئی ہےتصویر: Amr Nabil/AP Photo/picture alliance

اسرائیل کے ساتھ مصر کا سلامتی اور اقتصادی تعاون ایک عام بات ہے اور غزہ تنازعہ شروع ہونے تک مصر رفح میں غزہ-مصر سرحدی گزرگاہ کا انچارج بھی تھا۔ اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ اب اسے اس علاقے کو کنٹرول کرنے کی اجازت دی جائے۔ چونکہ غزہ میں مسلسل بگڑتی ہوئی انسانی تباہی کے مصری علاقے میں پھیلنے کا امکان ہے، اس لیے مصر کے لیے یہ پریشانی کا باعث ہے۔

غزہ میں طبی بحران پر امریکی کارکنوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

مصری حکومت نے پہلے ایک اسلامی تنظیم اور اپنی حکمرانی کے لیے خطرہ سمجھ کر حماس کی مخالفت کی تھی۔ لیکن حال ہی میں اس رویے میں نرمی آئی ہے اور مصر نے جنگ بندی کے مذاکرات میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔

سن 2023 سے مصر کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں لیکن اس میں سرد مہری کا رجحان بھی ہے۔

لبنان: بحرانوں کا شکار ملک

لبنان میں پارلیمانی جمہوریت ہے، جو فی الوقت اپنی سیاسی اور اقتصادی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ سن 2020 سے ہی ملک میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے اور وہ دنیا کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک سے نمٹ رہا ہے۔ اس سے پہلے لبنانی حکومت ہمیشہ ملک کے مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی تھی۔

غزہ کے بحران میں واشنگٹن کا ’ملوث ہونا ناقابل تردید،‘ کئی سابق امریکی حکومتی اہلکار

حزب اللہ کا سیاسی ونگ بھی ان گروہوں میں سے ایک ہے، جو شیعہ مسلمانوں کے مفادات کی نمائندگی کرتا ہے اور لبنان کی حکمرانی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں اسے اپنے مفادات کو دوسرے طاقتور گروہوں کے ساتھ متوازن رکھنا ہوتا ہے، جن میں لبنان کے عیسائی، سنی مسلمان اور دروز بھی شامل ہیں۔

حزب اللہ کا عسکری ونگ ایک الگ کہانی ہے۔ اسے امریکہ اور کچھ یورپی ممالک نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور اسے لبنان کی اپنی فوج کے مقابلے میں کہیں بہتر مسلح اور منظم سمجھا جاتا ہے۔

بغداد میں مظاہرہ
عراقی دارالحکومت بغداد میں فلسطینیوں کی حمایت اور امریکہ کی اسرائیل کی حمایت کے خلاف مظاہرےتصویر: Ahmed Saad/REUTERS

بہت سے لبنانی سیاست دان اور مقامی لوگ نہیں چاہتے کہ وہ حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ ایک بڑی لڑائی شروع کرتے ہوئے دیکھیں۔

عرب سینٹر واشنگٹن نے حال ہی میں لکھا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ "وہ ان اسرائیلیوں کا نشانہ بن جائیں گے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ حزب اللہ کو شکست دینے سے ان کا احساس تحفظ بحال ہو جائے گا۔"

لیکن لبنانی سیاست دان یہ بھی جانتے ہیں کہ حزب اللہ پر ان کا بہت کم کنٹرول ہے، جو کہ خطے میں نام نہاد "محور مزاحمت" کا سب سے طاقتور کھلاڑی ہے۔ محور مزاحمت  ایران کی حمایت یافتہ اور اسرائیل اور امریکہ کے مخالف عسکریت پسند گروپوں کا ایک ڈھیلا اتحاد ہے۔

شام: ایران کا اتحادی

سن 1949 میں قیام اسرائیل کے بعد سے ہی شام اپنے پڑوسی اسرائیل کے ساتھ  حالت جنگ ​​میں رہا ہے۔ دونوں ممالک اکثر ایک دوسرے پر فائرنگ کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ زیادہ تر علامتی سمجھا جاتا ہے۔

آج شام کے آمر بشار الاسد ایران کی طرف دیکھ رہے ہیں، جس نے ملک کی 13 سالہ خانہ جنگی کے دوران ان کی حمایت کی ہے۔ اس سے شام میں ایران نواز ملیشیاؤں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کی بھی وضاحت ہوتی ہے، جن میں حزب اللہ کے ارکان اور عراق سے تعلق رکھنے والے دیگر گروپ شامل ہیں۔

نتیجتاً، 2017 سے شام پر اسرائیلی حملے تیز ہو گئے ہیں اور سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد مزید بڑھ گئے ہیں۔ شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتی کمپاؤنڈ پر اپریل میں اسرائیل کا حملہ ہوا تھا، جس میں ایک سینیئر ایرانی کمانڈر ہلاک ہوا اور پھر ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف بڑا جوابی حملہ ہوا۔

عراق بیرونی مداخلت کے خلاف

ماہرین کا کہنا ہے کہ عراق اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اگرچہ عراق کی حکومت، جس پر فی الحال شیعہ مسلم سیاست دانوں کا غلبہ ہے، گزشتہ ایک دہائی کے دوران ایران کے قریب آچکی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطین ایک ایسا مسئلہ ہےجو فرقہ وارانہ خطوط کو ختم کرتا ہے۔

عراق کے اندر بہت سے عسکریت پسند گروپ موجود ہیں جن کا تعلق ایران کے "محور مزاحمت" سے بھی ہے۔ یہ گروپ پہلے بھی عراق میں امریکی اڈوں پر راکٹ فائر کر چکے ہیں اور اسرائیل کو نشانہ بنانے کی کوشش بھی کر چکے ہیں لیکن زیادہ تر ناکام رہے ہیں۔ امریکہ نے ان کے خلاف جوابی کارروائی بھی کی ہے۔

عراقی حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز یا تو ان گروہوں کو برداشت کرتی ہیں یا ان سے بہت کم رابطہ رکھتی ہیں۔

مارسین الشامری نے واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک، بروکنگز انسٹیٹیوشن کو بتایا، "عراق کو ہمیشہ امریکہ اور ایران کے درمیان اپنے تعلقات میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔"

ان کا کہنا ہے، "یہ عراقی رہنماؤں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ واشنگٹن کے ساتھ بغداد کے تعلقات کی واضح شکل ہے، خاص طور پر اسرائیل کے بارے میں۔ عراق نے مسلسل فلسطینی کاز کی حمایت کی ہے اور اس موجودہ تنازعے پر بھی اس کا موقف ایران سے متاثر ہو کر حماس کی حمایت نہیں، بلکہ اس کا آزادانہ موقف ہے۔"

یمن میں حوثیوں کی چلتی ہے

ملک میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے، یمن عدن، جنوبی یمن میں قائم بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت اور شمالی یمن میں حوثی باغی گروپ کے درمیان منقسم ہے۔ یمن اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔

یمن کا ہمسایہ ملک سعودی عرب اس سے قبل حوثیوں کے خلاف اتحاد کی قیادت کرتا تھا، لیکن سن 2022 کے اوائل میں جنگ بندی پر دستخط ہونے کے بعد سے نسبتاً پرسکون ہے۔

حوثی گروپ کو بھی "محور مزاحمت"  کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ حوثی حماس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی ایک طاقت ہے اور وہ خطے میں امریکی موجودگی کے بھی مخالف ہیں۔ نومبر میں، انہوں نے حماس کی حمایت میں اسرائیل پر راکٹ فائر کرنا شروع کر دیے اور سمندری ٹریفک کو بند کرنے کی کوشش کی۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر

خلیجی عرب ریاستوں کی مطلق العنان بادشاہتوں نے موجودہ تنازعے کے لیے زیادہ عملی انداز اپنایا ہے۔ وہ ایران کو دشمن کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس سے قبل اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر کام کر رہے تھے۔

سن 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے نام نہاد ابراہیمی معاہدے پر دستخط کیے اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی رابطے قائم کر لیے۔ اس صف میں اگلا ملک سعودی عرب نظر آ رہا تھا۔

تاہم سات اکتوبر کے حماس کے حملے اور پھر اسرائیل کی جنگ نے اس عمل کو پیچیدہ بنا دیا۔ حوثیوں کے حملوں نے یمن میں بھی سعودی عرب کے لیے مزید تنازعات کے خطرات کو بھی بڑھا دیا ہے۔

قطر زیادہ متوازن رہا ہے۔ یہ اسرائیل کے ساتھ معمول پر آنے سے گریز کرتا ہے لیکن حقیقت میں اس نے سن 1990 کی دہائی میں ہی اس ملک کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کر لیے تھے۔ چونکہ یہ حماس کے سیاسی ونگ کی میزبانی بھی کرتا ہے، اس لیے قطر نے جنگ بندی کے مذاکرات میں اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔

ص ز/ ج ا (کیتھرین شیئر)

غزہ کی جنگ کے سعودی اسرائیلی روابط پر اثرات