1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حالیہ ضمنی انتخابات: بے بس قوم کا بے بس الیکشن کمیشن

20 فروری 2021

پاکستان میں ووٹوں کی چوری کی شکایات تو ہر الیکشن میں سامنے آتی رہی ہیں۔ انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ الیکشن کمیشن نے اپنے ہی عملے کی ’’چوری‘‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کے کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

https://p.dw.com/p/3pdXe
Pakistan Parlamentswahlen
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی حامد میر نے بتایا کہ انتخابی عملے کے لاپتہ ہو جانے کی وجہ سے این اے پچھترمیں ہونے والا الیکشن تو مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ان کے بقول یہ پہلی مرتبہ ہے  الیکشن کمیشن نے خود ہی انتخابی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں

بیس سے زائد 'لاپتہ‘ پریزائیڈنگ افسران کے کئی گھنٹوں تک 'غائب‘ رہنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہفتے کے روز جاری کیے گئے اپنے اعلامیے میں کہا کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج پر شبہ ہے لہذا مکمل انکوائری کے بغیر غیر حتمی نیتجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔

دولت مندوں کے لیے سینیٹ کے ٹکٹس: کیا سیاست میں غریب آدمی کے لیے جگہ ہے؟

پنجاب حکومت کا ریسپونس

ای سی پی کے مطابق این اے 75 کے نتائج اور پولنگ عملہ 'لاپتہ' ہونے کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ معاملے کی اطلاع ملتے ہی رات گئے مسلسل آئی جی پنجاب ،کمشنر گجرانوالہ اور ڈی سی گجرانوالہ سے رابطے کی کوشش کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوا۔

Pakistan | Feiernde Anhänger von Imran Khan 2013
سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کا ووٹ بینک صوبہ پنجاب میں دکھائی دیتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Arab

اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیف سیکریٹری پنجاب سے رات تین بجے رابطہ ہوا اور ان کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کو تلاش کی جائے گا لیکن بعد میں ان سے دوبارہ رابطہ ممکن نہ ہو سکا اور کئی گھنٹوں کے بعد تقریباً صبح چھ بجے پریزایئڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ واپس آئے۔

عمران حکومت کی ساکھ پر سوال

حامد میر کے مطابق لاپتہ پریزایئڈنگ افسران سے جب پوچھا گیا کہ انہوں نے اتنی دیر غائب رہنے کے دوران الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام سے فون پر رابطہ کیوں نہیں کیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ حامد میر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی کی طرف سے جاری ہونے والی پریس ریلیز در اصل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے۔

پاکستانی سیاست سبزی منڈی کی کیچڑ زدہ آڑھت کیسے؟

پاکستان کے ایک ممتاز تجزیہ نگار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیالکوٹ میں ضمنی الیکشن کے موقعے پر ہونے والی واردات اتنی افسوسناک ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شامی کے مطابق اس صورت حال نے عمران حکومت کی ساکھ پر سوال اٹھا دئیے ہیں۔

ضمنی الیکشن کی شفافیت

اگرچہ پاکستان میں بعض سوشل میڈیا صارفین ڈھکے چھپے انداز میں سوالات اٹھا کر حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران ہونے والے کچھ واقعات میں خفیہ ہاتھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں تجزیہ نگاروں کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس ضمن میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے تحقیقات کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔

مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ پاکستان نون لیگ اور تحریک انصاف دونوں کے پاس ووٹ ہیں دونوں کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ ان کے بقول اہل سیاست کو اب مرنے مارنے کی سیاست کے خاتمے کی طرف آنا چاہیئے اور انہیں انتخاب جنگ کی طرح نہیں بلکہ کرکٹ میچ کی طرح لڑنا چاہیئے۔

Pakistan Opposition protestiert gegen regierung in Lahore
ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کو متحدہ اپوزیشن جماعتوں کا سامنا تھاتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Sajid Hussain

ان ضمنی انتخابات سے لگتا ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پنجاب میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف میں ہی ہو گا اور ان انتخابات میں نظر آنے والے مار دھاڑ کے واقعات  سے پتہ چل رہا ہے کہ ملکی سیاست میں تلخی کس قدر بڑھ چکی ہے۔

پاکستانی سیاست میں درآمد شدہ کرداروں کا پتلی تماشہ

ووٹ بینک

روزنامہ نائنٹی ٹو نیوز کے گروپ ایڈیٹر ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جمعے کے روز ہونے والے ضمنی انتخابات پی ڈی ایم کی احتجاجی مہم کے بعد منعقد ہوئے تھے ۔ ان انتخابات کے نتائج دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عوامی مقبولیت کس جماعت کے پاس ہے۔

کے پی میں تحریک انصاف کی ایک سیٹ پی ڈی ایم کو ملی اور پی ڈی ایم کی سیٹ پی ٹی آئی نے حاصل کی ہے۔ ادھر سیالکوٹ میں مسلم لیگ نون کو پچھلے الیکشن میں جس سیٹ پر تیس ہزار ووٹوں کی برتری ملی تھی وہاں اس الیکشن میں ان کی برتری چند ہزار تک رہی۔ ان کے بقول یہ کہنا درست ہو گا کہ دونوں جماعتوں کے پاس اپنا اپنا ووٹ بنک موجود ہے اور وہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے جدوجہد کر رہی ہیں۔

ارشاد عارف کے بقول ان انتخابات میں انتظامیہ کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ وہ انتخاب کے دوران غنڈہ گردی روکنے میں ناکام رہی ہے۔