1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینیٹ کے ٹکٹس: کیا سیاست میں غریب آدمی کے لیے جگہ ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
19 فروری 2021

پاکستانی کی ایوان بالا سینیٹ کے انتخابات کے لیے دولت مندوں کو ٹکٹ دیے جانے پر کئی حلقے چراغ پا ہیں جب کہ ناقدین یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ آیا پاکستان کے سیاسی نظام میں ایک غریب آدمی کی لیے کوئی جگہ بھی ہے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/3pbbc
فائل فوٹوتصویر: imago/Xinhua

ملک کے کئی حلقوں میں سب سے زیادہ تنقید پی ٹی آئی پر ہورہی ہے لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ اور اس کے مختلف پہلوؤں سے واقف سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ دولت مندوں کو نوازنے کا کام صرف ایک پارٹی نہیں کررہی بلکہ پی پی پی، ن لیگ اور جے یوآئی ایف نے بھی اشرافیہ کے لوگوں کو ہی نوازا ہے جب کہ ملکی اداروں بھی ایسے ہی لوگوں کے حامی ہیں۔

مہنگے انتخابات

پاکستان میں انتخابات کو ایک انتہائی مہنگا عمل سمجھا جاتا ہے۔ دوہزاراٹھارہ کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے اخراجات کی حد بیس لاکھ روپے تھی جب کہ قومی اسمبلی کے لیے یہ حد چالیس لاکھ روپے تھی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کی مالی قیمت چار سو چالیس ارب روپے تھی، جو دوہزار تیرہ کی قیمت سے دس فیصد زیادہ تھی۔

تاریخی تناظر

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست میں دولت کی ریل پیل ہمیشہ سے رہی ہے۔ "لیکن ستر میں ہونے والے انتخابات میں پھر بھی متوسط طبقے کے لوگ پی پی پی، جے یو آئی اور عوامی لیگ کی طرف سے اسمبلی میں آئے، جب کے کچھ غریب طبقات کے لوگ بھی تھے۔ میرے خیال میں اسکی ایک وجہ نظریاتی سیاست تھی جس کی وجہ سے مغربی پاکستان سے ایسے افراد اسمبلی میں آئے جب کہ مشرقی پاکستان میں جاگیرداری انیس سو اکیاون میں ختم کردی گئی تھی، اس لیے وہاں سے متوسط اور غریب طبقات کے لوگ آئے۔''

انکا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو قانونی طور پر پابند کیا جائے کہ وہ قومی، صوبائی اور سینیٹ کی نشتوں میں ایک مخصوص تعداد کسانوں، مزدوروں اور نچلے طبقات کی رکھیں۔ "لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون کو لائے گا کون؟ عمل کون کرائے گا؟  پی پی پی اورن لیگ تو کبھی کسی ایسے قانون کی حمایت نہیں کرینگی کیونکہ وہ تو خود بڑے طبقات کی جماعتیں ہیں۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ مودجودہ پی پی پی اور ن لیگ میں دولت مندوں کی بھرمار ہے۔ " سن1977 کے بعد ایم کیو ایم واحد جماعت تھی جس نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجا لیکن ان کا انداز سیاست فاشسٹ تھا۔ اس لیے ان کو بھی ناکامی ہوئی۔''

ترقیاتی فنڈز اور انتخابات

معروف تجزیہ نگار اورانگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایگزیکٹو ایڈیٹر ضیاء الدین کا کہنا ہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں سیاست میں پیسہ اور کرپشن آیا۔ " محبوب الحق نے ترقیاتی فنڈز کا اجراء کیا، جس سے کرپشن کو فروغ ملا۔ جب ایک امیدوار دس سے چالیس لاکھ روپے خرچ کر کے انتخابات لڑے گا تو پہلے وہ اپنے پیسے کی ریکوری کرے گا اور سینیٹ کے انتخابات میں ارکان صوبائی اسمبلی یہی کررہے ہیں۔''

سب قصوروار ہیں

پاکستان میں کئی حلقے پیسے کی اس ریل پیل کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو ٹھہراتے ہیں لیکن کئی ناقدین کے خیال میں پاکستان کی قومی دھارے کی جماعتیں اور دوسرے ادارے بھی اس کلچر کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "دوہزار گیارہ میں ورکرز پارٹی  اور دوسری جماعتوں نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی، جس کا مقصد انتخابی سیاست کو ایک عام آدمی کی دسترس میں لانا تھا، جس کے فیصلے میں عدالت عالیہ نے کہا تھا کہ انتخابات کےعمل کو ایسا بنایا جائے کہ عام آدمی بھی انتخابات لڑ سکے۔ جب الیکشن ایکٹ دوہزار سترہ میں صوبائی اسمبلی کے لیے انتخابی فیس دوہزار روپے سے بڑھا کربیس ہزار کی گئی اور قومی اسمبلی کی فیس چار ہزار سے بڑھا کر تیس ہزار کی گئی۔ تو میں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی لیکن جسٹس ثاقب نثار نے کچھ ہی منٹوں میں اس پٹیشن کو مسترد کردیا۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے یہ بات واضح تھی کہ غریب آدمی کے سیاست میں آنے کو کوئی برداشت نہیں کرنا چاہتا۔ "یہاں تک کہ انصاف کے ادارے بھی غریبوں کی آواز سننے کو تیار نہیں ہیں۔''

نمائندے کا غریب ہونا ضروری نہیں

تجزیہ نگار سید سجاد مہدی کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ ارکان اسبلی غریب ہی ہوں۔ "بھٹو صاحب کے دور میں عبدالستارگبول گدھا گاڑی پر آئے تھے اور بعد میں وہ ڈیفنس میں شفٹ ہوگئے۔ ساری دنیا میں مزدوروں اور کسانوں کی سیاست مڈل کلاس طبقے نے کی ہے اور میرے خیال میں اسمبلی میں اس طبقے کی اکثریت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ میرٹ بھی ہونا چاہیے۔ مثال کے دور پر پی پی نے انورلعل دین اور کرشنا کماری کو ایوان بالا میں پہنچایا لیکن پارلیمنٹ میں ان کی کارکردگی کوئی خاص نہیں ہے۔''

غلط تاثر

پی پی پی کے رہنما چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ اس نے امیروں کو سینیٹ یا پارلیمنٹ میں بھیجا۔ "رضا ربانی، تاج حیدر سمیت کئی افراد کا تعلق متوسط طبقے ہے، جنہوں نے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں بہترین کام کیے۔ اس کے علاوہ کرشنا کماری سمیت نچلے طبقات کے لوگوں کو بھی ایوان میں پہنچایا۔''

ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس بات کے حامی ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ وہ نشتوں کا ایک مخصوص حصہ مزدوروں، کسانوں اورنچلے طبقات کے لیے مختص کریں۔ 

سینیٹ سرکس اور جادوئی آئینہ 

پاکستان میں مقامی حکومتوں کے نظام کا اصل دشمن کون ہے؟