جڑے سروں والی بچیوں کی پیچیدہ سرجری کامیاب
8 جولائی 2020
ایرون اور پریفینا کے سر پیدائشی طور پر جُڑے ہوئے تھے اور ان کے دماغوں میں خون کی شریانے بھی مشترکہ طور پر دونوں کو خون سپلائی کر رہی تھیں۔ ان کی سرجری نہایت خطرناک اور پیچیدہ عمل تھی جسے سرجنوں نے نہایت مہارت سے کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا۔
یورپی ملک اٹلی میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا آپریشن تھا جو روم کے ایک ہسپتال میں کیا گیا۔ طبی ماہرین کے مطابق دو ملین بچوں کی پیدائش میں ایسے کسی ایک کیس کا امکان ہوتا ہے۔
ایرون اور پریفینا کے جُڑے ہوئے سروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے لیے سرجری 18 گھنٹوں تک جاری رہی۔ روم کے ویٹیکن کی ملکیت والے ''گیسو پیڈیاٹرک ہسپتال‘‘ میں ہونے والی اس سرجری میں سرجنز، ڈاکٹرز اور نرسوں کی 30 افراد پر مشتمل ٹیم نے حصہ لیا۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انفیکشن کا خطرہ ابھی بھی موجود ہے اور لڑکیوں کو حفاظتی ہیلمٹ کچھ مہینوں تک پہننا پڑے گا۔ بحالی کے مرحلے کے بعد، توقع کی جا رہی ہے کہ یہ جڑواں بچیاں معمول کی زندگی گزار پائیں گی۔ یہ سرجری پانچ جون کو کی گئی تھی۔ اب اس کے ایک ماہ گزر جانے کے بعد ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ دونوں بچیاں خیریت سے ہیں۔
پیدائش کے وقت جُڑے سر
وسطی افریقی جمہوریہ بنگوئی سے ان دونوں جوڑواں بہنوں کو ستمبر 2018ء میں اٹلی لایا گیا تھا۔ اطالوی ہسپتال کے صدر نے ان جڑواں بچیوں اور ان کی والدہ کو بنگوئی کے اس طبی مرکز میں دیکھا تھا جہاں ان کی پیدائش ہوئی تھی اور انہیں علاج کے لیے اٹلی لانے کا فیصلہ کیا۔
اٹلی میں ہونے والے ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ جڑواں بچیاں گرچہ صحتمند تھیں لیکن دونوں میں سے ایک کا دل زیادہ متحرک تھا کیونکہ وہ ''دماغ سمیت دونوں کے دیگر اعضاء اور جسمانی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ بوجھ برداشت کر رہا تھا۔‘‘
انتہائی مشکل سرجری
ان جڑواں بچیوں کی حالت کو طبی اصطلاح میں ''پوسٹیریئر کرانیو پیگس ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک جس میں دونوں جڑواں بچے مکمل طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں اور انہیں سرجری کے ذریعے علیحدہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے دوسری قسم وہ ہوتی ہے جس میں جڑواں بچوں کے دل اور دماغ سے لے کر جسم کے دیگر اعضاء جزوی طور پر جڑے ہوتے ہیں اور ان کی سرجری عام طور سے نسبتاً آسان ہوتی ہے۔
ایرون اور پریفینا کا کیس بہت پیچیدہ تھا اور یہ مکمل طور پر جُڑے ہوئے دماغ والی بچیاں تھیں۔ ان کے خون کی وریدوں کے مشترکہ نیٹ ورک کی وجہ سے سرجری خاص طور پر بہت بڑا چیلینج تھی۔ اس آپریشن کے بارے میں ہسپتال کے عملے نے ایک بیان میں کہا ،'' تین آپریشنوں کے ذریعہ آہستہ آہستہ دو علیحدہ اور آزاد وینز نظاموں کی تشکیل نو کی گئی۔ یعنی بہت سی رگوں کے نیٹ ورک کو ایک دوسرے سے جدا کیا گیا۔ آخری آپریشن میں، مشترکہ کھوپڑی کی ہڈیاں تقسیم کی گئیں۔ اس کے بعد سرجنوں نے دو دماغوں کو ڈھکنے والی جھلی کو دوبارہ تشکیل دیا اور نئی کھوپڑیوں پر جلد کا استر تیار کر کے چڑھایا۔
انتہائی نایاب
ماضی میں جڑواں بچوں کے سروں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے لیے سرجریز کی جاتی رہی ہیں اور بعض کامیاب بھی ثابت ہوئیں تاہم ان دونوں بچیوں کی سرجری اور ماضی کے آپریشن میں ایک واضح فرق ہے۔ زیادہ تر جڑواں بچوں کے سر عمودی طور پر یا سر کے اوپری حصے سے جُڑے ہوتے ہیں تاہم بنگوئی سے تعلق رکھنے والی ان بچیوں کے سر اور ان کے جُڑے ہوئے دماغ کے خون کی وریدوں کے مشترکہ نیٹ ورک کی وجہ سے سرجری خاص طور پر بہت بڑا چیلینج تھی۔
یورپ بھر میں گزشتہ 20 برسوں کے دوران صرف دو ایسی کامیاب سرجریز ہوئیں جن میں جڑواں بچوں کی کھوپڑیاں اوپری حصے سے آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔
ک م / ا ب ا (اے پی، اے ایف پی)