1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یہ بچے پھر بھیک مانگتے نظر آئیں گے‘ ایک اور پولیس آپریشن

شکور رحیم، اسلام آباد29 مئی 2015

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں پولیس اس سال اب تک پانچ ہزار سے زائد بھکاریوں کے خلاف کارروائی کر چکی ہے۔ ایسی سابقہ کارروائیوں کے چند ہی روز بعد یہ گداگر پھر سے بھیک مانگتے نظر آتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1FZ3L
Bangladesch Dhaka Bettler
پولیس کی گرفت میں آنے والے گداگر بچوں کو بعد ازاں اُن کے والدین کے حوالے کر دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی روز بعد یہ بچے پھر سڑکوں پر نظر آتے ہیںتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

پولیس کا کہنا ہے کہ ان پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف مقدمات کے اندراج کے علاوہ کم عمر بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن سینٹرزجبکہ لڑکیوں کو فلاحی تنظیم ایدھی کے مراکز بھیج دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد پولیس کے ترجمان محمد نعیم کے مطابق پولیس کے خصوصی انسداد بھیک اسکواڈ نے رواں برس اب تک چار ہزار دوسو نوے بھکاریوں کے خلاف کارروائی کی۔ ان بھکاریوں میں سے تین ہزار سات سو بارہ کو ایدھی ہومز بھجوایا گیا جبکہ دو سو پینتالیس بچوں کو اسلام آباد میں قائم نیشنل چائلڈ پروٹیکشن سینٹر اور راولپنڈی میں قائم پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو بھجوا دیا گیا۔ ترجمان کے مطابق دو سو پچانوے بھکاریوں کے خلاف مختلف تھانوں میں مقدمات بھی درج کیے گئے۔

اسلام آباد پولیس کے انسداد بھیک سکواڈ کے انچارچ اسسٹنٹ سب انسپکٹر یونس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک مسلسل کارروائی ہے، جو پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف صبح و شام جاری ہے۔ شہر کے اندر مختلف تجارتی مراکز، مارکیٹوں اور چوراہوں پر لگے سگنلز کے قریب بھیک مانگنے والے بھکاریوں کو ہم پکڑ کر لے جاتے ہیں، کارروائی کرتے ہیں لیکن یہ پھر آ جاتے ہیں اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے، ان کے خلاف کاروائی کرنے کا‘۔

راولپنڈی میں ضلع پولیس اور ٹریفک پولیس نے بھکاریوں کے خلاف کارروائی کے لیے مشترکہ اسکواڈ تشکیل دے رکھا ہے۔ اس اسکواڈ کے سربراہ انسپکٹر بشیر طور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ پانچ ماہ میں ایک ہزار اڑتالیس بھکاریوں کے خلاف کارروائی کی۔ ان بھکاریوں میں شامل سترہ کمسن بچوں کو پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حوالے کر دیا گیا جبکہ ایک سو اٹھائیس کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ راولپنڈی کے مختلف علاقوں میں بھیک مانگنے والے گروہ دراصل ایک ایسے مافیا کا حصہ ہیں، جس نے اپنے اپنے علاقے بانٹ رکھے ہیں۔

انسپکٹر طور نے بتایا:’’پنڈی ایئر پورٹ کے قریب ناصر نامی ایک شخص ہے، جو بھیک مانگنے والوں کی سر پرستی کرتا ہے۔ وہ انہیں بتاتا ہےکہ پولیس سے بچنے کے لیے وہ کیا طریقے اختیار کریں۔ اس کے علاوہ کئی مرتبہ ہم بھکاریوں کو گرفتار کر کے ابھی متعلقہ تھانے پہنچاتے ہی ہیں تو وہاں ان کا وکیل پہلے سے موجود ہوتا ہے تو اندازہ لگائیں کہ کوئی تو لوگ ہیں، جو ان کے پیچھے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کہ متعدد بار متعلقہ تھانے کے اہلکار بھکاریوں کے خلاف مقدمے کے اندراج میں بھی بہت تاخیر کرتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے مقدمے کی پیروی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، جہاں نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے کیونکہ یہ ایک قابل ضمانت جرم ہے اور اکثر اوقات مجسٹریٹ پہلی پیشی پر ہی گرفتار بھکاریوں کی ضمانت لے لیتے ہیں۔

Bangladesch Dhaka Bettler
پوری دنیا میں گداگروں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، یہ تصویر بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا کی ہےتصویر: Munir Uz Zaman/AFP/Getty Images

راولپنڈی میں قائم پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں تعینات چائلڈ پروٹیکشن افسر محمد نوید کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے لائے جانے والے بھکاری بچوں کی چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر چائلڈ پروٹیکشن کورٹ سے قانونی تحویل لی جاتی ہے۔ اس کے بعد ان بچوں کے خاندانوں سے رابطہ کیا جاتا ہے اور پھر عدالت کے ذریعے ہی ان بچوں کو والدین کے حوالے کیا جاتا ہے۔ محمد نوید نے کہا:’’عدالت ان بچوں کے والدین یا قریبی رشتے داروں کی طرف سے ایسا بیان حلفی جمع کرائے جانے کے بعد کہ وہ اپنے بچوں کا خیال رکھیں گے اور آئندہ انہیں بھیک نہیں مانگنے دیں گے، ان بچوں کو والدین کے سا تھ بھجوا دیتی ہے۔‘‘

محمد نوید کے مطابق بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ والدین عدالت سے اپنے بچوں کو بیان حلفی جمع کرانے کے بعد واپس لے گئے لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہی بچے بھیک مانگتے ہوئے گرفتار ہو کر پھر ان کے پاس چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں پہنچ گئے۔

ایسی صور ت میں ان بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں نوید نے بتایا:’’ ہم پنجاب میں عدم توجہی کے شکار بچوں سے متعلق قانون کے تحت ہی ان بچوں سے نمٹ سکتے ہیں اور اس کے تحت ان بچوں کے والدین کو جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ بھکاری بچوں کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ایک منظم اور مربوط پالیسی اپنانا ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید