1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

جنوبی افریقہ: 'ہر دن لاکھوں لوگ ایک خوراک ترک کرنے پر مجبور'

25 اگست 2022

جنوبی افریقہ میں ٹریڈ یونینوں کی قیادت میں ہونے والے مظاہرین نے حکومت سے مہنگائی اور عام اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کساد بازاری کے ساتھ ہی جنوبی افریقہ کورونا وائرس کی وبا سے بھی دوچار ہے۔

https://p.dw.com/p/4G0Pl
Südafrika Pretoria Proteste von Arbeitern gegen hohe Lebenshaltungskosten
مہنگائی اور بجلی کی کٹوتیوں کے خلاف احتجاج کے لیے معروف شہر پریٹوریا میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئےتصویر: Esa Alexander/REUTERS

جنوبی افریقہ میں سب سے بڑی ٹریڈ یونینوں نے 24 اگست بدھ کے روز  بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بجلی کی کٹوتیوں کے خلاف احتجاج کے لیے کال دی تھی، جس پر ملک کے معروف شہر پریٹوریا میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

بڑی تعداد میں مزدوروں اور دیگر سینکڑوں افراد نے ان حکومتی عمارتوں کے آس پاس مارچ کیا، جہاں ایوان صدر واقع ہے۔ مظاہرین نے صدر سیرل رامافوسا اور ان کی حکومت سے عام اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور زندگی گزارنے کی دیگر بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کا مطالبہ کیا۔

 جنوبی افریقی فیڈریشن آف ٹریڈ یونینز کے جنرل سیکرٹری زولینزیما واوی نے ہجوم سے خظاب کرتے ہوئے کہا، "ہم سانس لینے سے بھی قاصر ہیں۔"

مشکل اقتصادی حالات، برطانیہ اب ’غریب‘ ہو رہا ہے

واوی کا مزید کہنا تھا، "جب ہمیں معلوم ہے، تو ہم اس بات سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے کہ کل اور آج بھی کم سے کم  ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ دن میں ایک بار کا کھانا چھوڑنے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ کھانے کی ایک پلیٹ بھی خریدنے کے متحمل نہیں ہیں۔"

بدحالی کا شکار جنوبی افریقہ کی معیشت 

کورونا وائرس کی وبا نے جنوبی افریقہ کو سخت طور پر متاثر کیا اور ایک اندازے کے مطابق تقریبا 20 لاکھ ملازمتیں ختم ہو گئیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کی شرح 35 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

افراط زر کی شرحوں میں 7.8 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بجلی کی فراہمی میں زبردست کٹوتی کی جا رہی ہے کیونکہ توانائی پیدا کرنے والا سرکاری ادارہ اسکام، بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جد و جہد میں لگا ہے۔

Südafrika Pretoria Proteste von Arbeitern gegen hohe Lebenshaltungskosten
مظاہرین نے صدر اور ان کی حکومت سے عام اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور زندگی گزارنے کی دیگر بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کا مطالبہ کیاتصویر: Esa Alexander/REUTERS

بدھ کے روز اعداد و شماریات سے متعلق قومی ادارے نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق کھانے پینے اور غیر الکوحل مشروبات کی قیمتوں میں 9.7 فیصد جبکہ بجلی کے نرخوں میں 7.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔

کیا پاکستان کا حال بھی سری لنکا جیسا ہو سکتا ہے؟

اسکول کے ایک ٹیچر مولوسی تمامے کا کہنا تھا، "معیشت گر چکی ہے، خاص طور پر ہمارے غریب اساتذہ کے لیے۔۔۔۔۔۔  میں تو شرح سود کی وجہ سے اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔۔۔۔۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، یہاں تک کہ ہمارے طبی امداد کے پریمیم بھی بڑھ رہے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "یہ ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایک استاد کے طور پر میں اب وہ زندگی گزارنے کا متحمل ہی نہیں ہوں، جس کا میں جینے کا حقدار ہوں۔"

حکومت کا مظاہرین کو جواب

جنوبی افریقہ کی ٹریڈ یونینز اس معاشی صورت کے لیے ملک کی حکمران جماعت افریقن نیشنل کانگریس (اے این سی) کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ ان کے مطابق وبائی امراض کے آغاز سے قبل ہی ملکی معیشت لڑکھڑائی شروع ہو گئی تھی۔

کانگریس آف ساؤتھ افریقن ٹریڈ یونینز کے نائب ڈائریکٹر مائیک شنگنگے کا کہنا تھا، " یہ ایک سماجی جدوجہد ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ اب حرکت میں آئے بغیر، "ہمارا مستقبل برباد نظر آ رہا ہے، ہمارے نوجوانوں کا مستقبل برباد ہے۔ ہمیں اب لڑنا ہو گا۔"

ایوان صدر میں وزیر مونڈلی گنگوبیلے نے مظاہرین سے ملاقات کی اور یہ عہد  کیا کہ ان کے مسائل حکومت کی ترجیح ہیں۔ ان کا کہنا تھا، "ہم آپ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ جب تک حکومت عدم مساوات سے نہیں نمٹتی، اس وقت تک یہ سب غیر معنی ہے۔"

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)