1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتبرطانیہ

مشکل اقتصادی حالات، برطانیہ اب ’غریب‘ ہو رہا ہے

18 اگست 2022

پہلے ریلوے ملازمین، پھر ڈاک کے عملے اور بندرگاہوں کے مزدوروں نے ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ برطانیہ میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے تنخواہ دار طبقے کو ’کچل‘ کر رکھ دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4FkDu
Schottland Obdachlosen-Krise
رواں برس افراط زر کی شرح گزشتہ چالیس برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی ہےتصویر: Getty Images/C. Furlong

ملازمین کی طرف سے ہڑتال کی وجہ سے برطانیہ کے ٹرین نیٹ ورک کو آج جمعرات اور آئندہ  ہفتے کو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برطانوی ریلوے کے ملازمین گزشتہ تین عشروں میں سب سے بڑی احتجاجی اور ہڑتالی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اندازوں کے مطابق آئندہ دو روز کے دوران ہزاروں ریلوے ملازمین اس ہڑتال میں شریک ہوں گے۔ ریل سروس متاثر ہونے سے نہ صرف چھٹیاں منانے والوں کو مشکلات پیش آئیں گی بلکہ دفتروں میں کام کرنے والوں کا بھی نقصان ہو گا۔

مشرقی انگلینڈ میں واقع برطانیہ کی سب سے بڑی مال بردار بندرگاہ 'فیلکس اسٹو‘ کے ملازمین بھی آٹھ روزہ ہڑتال کریں گے لیکن اس سے پہلے ہفتے کے روز لندن کی زیر زمین ریلوے 'دا ٹیوب‘ ہڑتال کی زد میں آئے گی۔

 مہنگائی اور ہڑتالوں کا سلسلہ

 ایک بڑی برطانوی یونین 'یونائیٹ‘ کے سربراہ شیرون گراہم کا کہنا ہے، '' اس (مہنگائی کے) بحران میں زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے۔ ہم ملازمتوں، تنخواہوں اور اپنی شرائط کے دفاع کے لیے، جو بھی ضروری ہے، وہ کرتے رہیں گے۔‘‘

برطانیہ میں اشیائے خور و نوش اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کئی ملین شہریوں کو متاثر کیا ہے اور غربت کے شکار افراد کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس افراط زر کی شرح گزشتہ چالیس برسوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی ہے۔ یہ شرح 10 فیصد سے زائد ہو چکی ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

معاشی ماہرین کے مطابق ایک نئے وزیر اعظم کے تحت صورتحال مزید خراب ہونے والی ہے کیونکہ مشکلات کے شکار بورس جانسن جلد ہی عہدہ چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

بینک آف انگلینڈ نے رواں سالافراط زر کی شرح 13 فیصد سے بھی اوپر رہنےکی پیش گوئی کی ہے۔ اس سے برطانوی معیشت کو گہری اور دیرپا کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

برطانیہ میں کئی دیگر شعبوں کے ملازمین نے بھی موسم گرما میں ہڑتال کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسی کئی ہڑتالیں بالکل آخری لمحات میں منسوخ کر دی گئیں تھیں کیوں کہ کمپنیاں تنخواہوں میں اضافے پر متفق ہو گئی تھیں۔

دوسری جانب برطانوی سرکاری ڈاک محکمے 'رائل میل‘ کے ایک لاکھ پندرہ ہزار ملازمین نے بھی ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ چار روزہ ہڑتال اگست کے آخری دنوں میں کی جائے گی۔

اسی طرح برطانیہ کی بڑی ٹیلی کام کمپنی بی ٹی کو 35 برسوں میں پہلی مرتبہ ملازمین کی ہڑتال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایمازون کے ویئر ہاؤسز کو بھی جلد ہی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا ہو گا۔

برطانیہ کے بڑے بزنس لابی گروپ 'سی بی آئی‘ نے رواں ہفتے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ملازمین کو توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اور ''آجر کمپنیاں اپنے کارکنوں کی ہر ممکن مدد‘‘ کر رہی ہیں۔

دریں اثناء  تجزیہ کار موسم گرما کے بعد بھی ہڑتالوں کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں کیونکہ افراط زر مسلسل بڑھ رہی ہے۔

برطانیہ میں یہ ساری پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے، جب اساتذہ اور صحت کے کارکنوں نے بھی ممکنہ واک آؤٹ کا اشارہ دیا ہے۔ ان شعبوں کے ملازمین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

برطانیہ میں تمباکو مصنوعات کی فروخت پر مکمل پابندی کی سفارش

ا ا / ع ا ( روئٹرز، اے ایف پی)