1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنرل فیض حمید کی طلبی، قانون کی حکمرانی کے آثار؟

15 دسمبر 2023

سپریم کورٹ کی طرف سے شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف نوٹس جاری ہونے کو کئی حلقے قابل ستائش قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4aE2S
Supreme Court of Pakistan in Islamabad
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance

وکلا برادری سے تعلق رکھنے والے کئی ماہر قانون دانوں کا کہنا ہے کہ اس سے یہ تاثر جائے گا کہ ملک میں کوئی ''مقدس گائے‘‘ نہیں ہے اور یہ کہ جو طاقت میں آنے کے بعد اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے یہ ایک مضبوط پیغام ہے۔

واضح رہے کہ آج سپریم کورٹ نے سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی کی اپیل کی سماعت کے دوران چار افراد کو نوٹسز جاری کیے ہیں، جس میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کاسی، ریٹائرڈ بریگیڈیئر عرفان رامے اور سابق رجسٹرار ارباب محمد عارف شامل ہیں۔

چیف جسٹسقاضی فائز عیسی  کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برخواستگی کے خلاف اپیل کو سن رہی تھی۔ بینچ کے دوسرے ارکان میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سادات شامل تھے۔

شوکت عزیز صدیقی نے اپنی ترمیمی اپیل میں سات افراد کے نام دیے تھے۔ تاہم عدالت کی حجت تھی کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور دو سابق بریگیڈیئرز بریگیڈیئر فیصل مروت اور طاہر وفائی کا اس کیس سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔

شوکت عزیز صدیقی کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے 11 اکتوبر دوہزار اٹھارہ کو نوکری سے ہٹایا گیا تھا۔ انہوں نے دوران ملازمت 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار ایسویشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر سنگین الزامات لگائے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ عدلیہ پر دباؤ ڈال کر بینچیں بنواتے ہیں۔ سابق آئی ایس  آئی چیف جنرل فیض حمید کو اپنے دور میں انتہائی طاقتور سمجھا جاتا تھا اور ان کے حوالے سے کچھ عرصے پہلے ایک بزنس مین نے بھی شکایت کی تھی کہ ان کے کہنے پر انہیں اغوا کیا گیا اور ان کی فیملی کو ہراساں کیا گیا۔

قابل ستائش قدم

 وکلا برادری نے نوٹیسز کے جاری ہونے کو بہت مثبت قرار دیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے موجودہ رکن اختر حسین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ یہ بات انتہائی حوصلہ افزا ہے کہسپریم کورٹ  یہ واضح پیغام بھیج رہی ہے کہ ملک میں کوئی مقدس گائے نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے خیال میں یہ بہت مثبت پیش رفت ہے کہ عدالت طاقتور لوگوں کو یہ بتا رہی ہے کہ کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور یہ کہ اگر کسی نے بے پناہ طاقت کے ساتھ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے تو عدالت اس کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ وہ قانون کی زد میں آ سکتا ہے۔‘‘

اختر حسین ایڈوکیٹ کے مطابق اس فیصلے سے یہ تاثر جائے گا کہ پاکستان قانون کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے، جو یقیناً عام پاکستانی کے لیے ایک اچھی بات ہے۔

بات صرف نوٹسیز تک محدود نہیں

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ عدالت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی کو مقدس گائے تسلیم نہیں کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس طرح طاقتور لوگوں کے خلاف نوٹسز جاری کرنا نہایت جرات مندانہ اقدام ہے اور بات صرف نوٹسز جاری کرنے تک ہی نہیں بلکہ جس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کو سینسر کیا گیا تھا کل پورے پاکستان کو وہ سپریم کورٹ کے ذریعے پہنچی، جس میں شوکت عزیز صدیقی نے کھل کر یہ الزام لگایا تھا کہ کس طرح اس وقت کے چیف جسٹس نے کوئٹہ میں بیٹھ کر بینچیں بنوائی تھیں۔‘‘

ان نوٹسیز کے اجرا سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ جنرل فیض کو اب ادارے کا تحفظ نہیں رہا۔ ''میڈیا اب اتنا سرگرم ہے کہ عدالتوں کو بھی یہ بات پیش نظر رکھنی پڑتی ہے کہ ان کی ساکھ پر سوال نہ اٹھے۔‘‘

قانونی راستے

 انعام الرحیم کے مطابق اب جنرل فیض اور دوسرے فریقین کے پاس کچھ ہی قانونی اپشنز ہیں۔ ''یا تو انہیں عدالت میں حاضر ہونا چاہیے یا اپنے وکیل کے ذریعے جواب جمع کرائیں اور یا غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ بتائیں۔‘‘

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق اگر غیر حاضری کا تسلسل برقرار رہا تو قانونی طور پہ عدالت کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے یا مسلسل غیر حاضریوں پر یکطرفہ فیصلہ دیتے ہوئے کیس کو نپٹا بھی دے۔

دوسری عدالتیں بھی جرات کا مظاہرہ کررہی ہیں

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے مطابق صرف سپریم کورٹ نہیں بلکہ دوسری عدالتیں بھی جرات کا مظاہرہ کر رہی ہیں اور وہ بھی طاقتور لوگوں کو طلب کر رہی ہیں۔ ''حال ہی میں میں نے ایک کیس ایک ریٹائرڈ کرنل کا لاہور ہائی کورٹ پنڈی برانچ میں کیا ہے، جس میں کرنل کو ریٹائرمنٹ کے باوجود پینشن نہیں دی جا رہی۔ اس کیس میں متعلقہ عدالت کے جج نے ایک حاضر سروس میجر جنرل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے کا کہا ہے، تو یہ ساری باتیں حوصلہ افزا ہیں اور اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ ملک قانون کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘‘

پاکستان میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ جرنیلوں کا عدالتیں احتساب نہیں کر پاتیں۔ تاہم جنرل مشرف سمیت تاریخ میں کچھ ایسے فوجی افسران گزرے ہیں جن کے خلاف عدالتوں نے فیصلے دیے ہیں۔ پاکستانی صحافت میں جرنیلوں سے تند و تیز سوالات کی شہرت رکھنے والے صحافی اعزاز سید کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ جرنیلوں کی طلبی ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے لیکن ان کے خیال میں اصل مسئلہ حاضر سروس جرنیلوں کا ہے۔ '' میرے خیال میں عدالتیں عموماً حاضر سروس جرنیلوں کی موجودگی کو یقینی نہیں بنا پاتیں اوران کو عموماً طلب بھی نہیں کیا جاتا۔‘‘