1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں بڑھتے چاقو حملے، بڑی سیاسی جماعتوں کا اجلاس

3 ستمبر 2024

جرمنی میں حالیہ ہفتوں کے دوران چاقو سے ہونے والے خونریز حملوں کے تناظر میں جرمن سیاسی جماعتیں اور ریاستی حکومتیں سکیورٹی کے معاملات اور ترک وطن جیسے موضوعات پر بات چیت کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4kDQ2
Deutschland, Solingen | Nach der Messerattacke auf dem Solinger Stadtfest
تصویر: Thilo Schmuelgen/REUTERS

جرمن چانسلر اولاف شولس کی حکومت، مرکزی دھارے کی قدامت پسند حزب اختلاف اور جرمن ریاستوں کے نمائندے آج منگل تین ستمبر کو برلن میں ملاقات کر رہے ہیں، جس میں شہر کے ایک فیسٹیول کے دوران ہونے والے مہلک حملے کے بعد مہاجرین اور سکیورٹی پالیسی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

جرمنی کی سیاسی جماعتوں کے اس اجلاس کی میزبانی جرمن وزارت داخلہ کر رہی ہے۔ اس وزارت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مغربی شہر زولنگن میں 23 اگست کو ہونے والے حملے کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ ہفتے اعلان کردہ سکیورٹی پیکیج پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

جرمنی کے شہر زیگن میں چاقو حملہ، پانچ افراد زخمی

جرمن چانسلرکا چاقو حملے سے متاثرہ زولنگن شہر کا دورہ

اس واقعے کا مشتبہ حملہ آور شام سے تعلق رکھنے والا ایک شخص ہے، جس کی ملک بدری کا فیصلہ ہو چکا تھا تاہم حکومت اس پر عملدرآمد میں ناکام رہی تھی۔ اس شخص کو قتل اور دہشت گرد گروپ داعش کی مبینہ رکنیت کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔

جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر
وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ نینسی فیزر مذاکرات کی صدارت کریں گی۔تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture alliance

زولنگن حملے سے قبل جون کے اوائل میں جرمن شہر من ہائیم میں ایک افغان مہاجر کے ہاتھوں ایک پولیس افسر کی بھی ہلاکت ہوئی تھی۔

برلن میں ہونے والے اجلاس میں چانسلر اولاف شولس شرکت نہیں کریں گے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے وزیر داخلہ نینسی فیزر مذاکرات کی صدارت کریں گی، جس میں وزیر انصاف مارکو بُشمان اور وزیر خارجہ انالینا بیئربوک بھی شریک ہوں گی۔

اس اجلاس میں جرمنی کی 16 ریاستوں کی نمائندگی کرنے والے متعدد اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کے اپوزیشن بلاک سی ڈی یو/ سی ایس یو کے دو سینئر قانون ساز تھورسٹن فرائی اور آندریا لِنڈہولز بھی شریک ہوں گے۔

چاقو حملے کے بعد سخت اقدامات کا اعلان

گزشتہ ہفتے شولس کی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ ''سخت اقدامات‘‘ میں عوامی مقامات پر چاقو لے جانے پر سخت قواعد، پناہ گزینوں کو ملنے والے فوائد کے حوالے سے سخت نئی حدود اور مشتبہ مسلم شدت پسندوں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے پولیس کے زیادہ اختیارات تجویز کیے گئے تھے۔

نئی تجویز کے تحت، وہ پناہ گزین، جو ابتدائی طور پر یورپی یونین کے دیگر ممالک میں رجسٹرڈ تھے، اب جرمنی میں سماجی فوائد حاصل کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔

یہ تبدیلیاں، جنہیں جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ’’دور رس اور سخت‘‘ قرار دیا ہے، جرمنی سے ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے میں بھی آسانی پیدا کریں گی، جو کسی ہتھیار کے ساتھ کوئی جرم کرتے ہیں۔

جرمنی کی حزب اختلاف کے اہم رہنما فریڈریش میرس
جرمنی کی حزب اختلاف کے اہم رہنما فریڈریش میرس نے اس اجلاس سے قبل کہا کہ اصل مسئلہ ’’بے قابو امیگریشن‘‘ ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔تصویر: Hannes P Albert/dpa/picture alliance

وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق یہ پیکیج آج ہونے والے اجلاس کے لیے ایک ''لازمی بنیاد‘‘ فراہم کرے گا۔ ترجمان کے مطابق، ''پیکیج کے علاوہ، ہم نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم سی ڈی یو/ سی ایس یو اور وفاقی ریاستوں کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر غور کے لیے تیار ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ان پر تبادلہ خیال کریں گے۔‘‘

قدامت پسند جرمنی میں 'امیگریشن‘ محدود کرنے کے خواہاں

جرمنی کی حزب اختلاف کے اہم رہنما فریڈریش میرس نے اس اجلاس سے قبل کہا کہ اصل مسئلہ ’’بے قابو امیگریشن‘‘ ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''اگر حکومتی اتحاد ہم سے کسی حل کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے تو امیگریشن کو محدود کرنا ایجنڈے کا نمبر ایک موضوع ہونا چاہیے۔‘‘ ان کا استدلال تھا کہ غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو فوری طور پر سرحد سے ہی واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔

میرس کے بقول، ''آپ صرف جلاوطنی کے ساتھ مسئلے کو حل نہیں کرسکتے۔‘‘ میرس نے تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کے قانون سے نمٹنے کے لیے ''قومی ایمرجنسی‘‘ کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے تاکہ تارکین وطن کی ملک بدری میں تیزی لائی جا سکے۔

داعش اب بھی بھرتیاں کرنے کے قابل کیسے ہے؟

ا ب ا/ا ا (ڈی پی اے)