1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں ایک ہی افسر نے دو ہزار مہاجرین کو پناہ کیسے دی؟

17 مئی 2018

جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کے ایک ہی اہلکار کی طرف سے تقریباﹰ دو ہزار مہاجرین کو ’نامناسب طریقے سے‘ پناہ دیے جانے کے اسکینڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد وفاقی وزارت داخلہ نے اس ادارے کا دفاع کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2xskU
Bundesamt für  Migration Gelände Flüchtlinge
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سترہ مئی بروز جمعرات اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ اپنا کام انتہائی مستعدی اور بہتر طریقے سے ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس ادارے کے ملازمین ایک اہم شعبے میں انتہائی اچھا کام کر رہے ہیں۔‘‘

کس راستے سے جرمنی آئے؟ بی اے ایم ایف کا پناہ گزینوں سے سوال

جرمنی سے گزشتہ برس چوبیس ہزار تارکین وطن ملک بدر کیے گئے

جرمنی میں پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ’سست روی کا شکار‘

جرمن معاشرے و روزگار کی منڈی ميں 'مہاجرين کا انضمام کیسے بہتر بنایا جائے؟'

زیہوفر نے مزید کہا کہ بی اے ایم ایف کے کسی ایک اہلکار کے نامناسب رویے کی وجہ سے اس ادارے کی طرف سے سرانجام دی جانے والی خدمات پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے۔

ہورسٹ زیہوفر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب یہ ادارہ ایک اسکینڈل کی زد میں آیا ہوا ہے۔ بی اے ایم ایف کے ایک اہلکار پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے غالباﹰ رشوت لیتے ہوئے پناہ کے متلاشی دو ہزار کے قریب افراد کو جرمنی میں پناہ کے قانونی دستاویزات جاری کیے۔ دفتر استغاثہ اس معاملے کی چھان بین کر رہا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ بی اے ایم ایف کے جرمن شہر بریمن کے دفتر کے اس اہلکار نے سن دو ہزار تیرہ تا سن دو ہزار سولہ کے درمیان کم ازکم بارہ سو مہاجرین کو جرمنی میں رہائش کے اجازت نامے جاری کیے۔

حکام کے مطابق اس کیس کی چھان بین کے سلسلے میں اسی دفتر کے دیگر پانچ اہلکاروں کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔ کچھ پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے غالباﹰ رشوت لیتے ہوئے نامناسب طریقے سے پناہ کے یہ کاغذات جاری کیے۔

اس معاملے میں سیاسی رنگ اس وقت آیا، جب بی اے ایم ایف کے بریمن دفتر کی ڈائریکٹر جوزفا شمٹ کو انتظامی (جبری) رخصت پر بھیجا گیا۔ شمٹ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس اسکینڈل کے تناظر میں اپنے پیش رو کے مبینہ غلط کاموں کے بارے میں وزارت داخلہ کو مطلع کرنے کی کوشش کی تھی۔

شمٹ نے چودہ مارچ کو جب یہ عہدہ سنبھالا تھا تو بظاہر انہوں نے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر سے براہ راست ملاقات کرنے کی درخواست بھی کی تھی۔

ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ تاہم مبینہ طور پر وزیر داخلہ زیہوفر کو شمٹ کی اس درخواست کے بارے میں کئی ہفتوں تک مطلع ہی نہیں کیا گیا۔

اس حوالے سے زیہوفر کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے پر فوری ایکشن نہیں لیا۔ ایک اپوزیشن پارلیمانی پارٹی نے اس کیس کی پارلیمانی سطح پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔

ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے