1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی: افغانوں کی ملک بدری کے خلاف مظاہرہ

8 اپریل 2021

افغانستان میں سلامتی کی خستہ صورت حال کے مد نظر جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کو'ڈیپورٹیشن فلائٹ‘ کے ذریعے ملک بدر کر دینے کا اقدام خاصا متنازع ہے۔

https://p.dw.com/p/3rhgS
Abschiebung Abschiebeflüge
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Babbar

مظاہرین بدھ کی دیر رات برلن ہوائی اڈے کے ٹرمنل پانچ پر جمع ہوئے۔ وہ پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی درخواستوں کو مسترد کر دیے جانے اور طیارے پر سوار کر کے انہیں افغانستان روانہ کر دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ گر چء پہلے 50 سے 75 کے درمیان لوگوں کے جمع ہونے کی امید تھی لیکن تقریباً 350 افراد احتجاج میں شامل تھے۔

مظاہرین نے تختیاں اٹھارکھی تھیں جن پر حکام سے ڈپورٹیشن فلائٹ کو منسوخ کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔ کچھ مظاہرین نے ہوائی اڈے تک جانے والی سڑکوں کو جام کر دیا۔ مظاہرے کا اہتمام برینڈن برگ ریفیوجی کونسل نے کیا تھا۔ طیارے کے افغانستان روانہ ہونے کے بعد ہی مظاہرہ ختم ہوا۔

بعد میں جمعرات کی صبح ایک جرمن طیارے کے ذریعہ بیس افغان شہری کابل پہنچ گئے۔ دسمبر 2016 میں ملک بدری کی پالیسی نافذ کیے جانے کے بعد سے یہ 38 ویں ڈیپورٹیشن فلائٹ تھی۔ اب تک مجموعی طورپر ایک ہزار 35 افغان شہریوں کو پناہ حاصل کرنے کی ان کی  درخواستیں مسترد کر کے افغانستان واپس بھیجا جا چکا ہے۔

ملک بدری کے فیصلے کی نکتہ چینی کیوں ہو رہی ہے؟

بدھ کے روز برلن میں ہونے والے مظاہرے سے چند روز قبل ہی جرمنی میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم پرو ایزائل  (Pro Asyl) نے ملک بدر کر کے افغانستان بھیجنے کے اقدام کو روکنے کی اپیل کی تھی۔ اس تنظیم نے افغانستان میں سکیورٹی کی ابتر صورت حال کے علاوہ کووڈ انیس کی وبا کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں فی الحال ایسے حالات نہیں ہیں کہ لوگوں کو واپس جانے کے لیے مجبور کیا جائے۔

مارچ 2020 میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے بعد جرمنی نے افغانیوں کی ملک بدری کا سلسلہ عارضی طور پر معطل کر دیا تھا لیکن گزشتہ برس دسمبر میں اسے پھر سے بحال کر دیا۔

افغانستان کے لیے ڈیپورٹیشن فلائٹیں جرمن سیاسی جماعتوں کے درمیان بحث کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ وزیر داخلہ اور قدامت پرست جماعت کرسچن سوشل یونین کے رکن ہورسٹ سیوفر ملک بدری کی وکالت کرتے رہے ہیں لیکن گرین پارٹی کی رکن پارلیمان کلاوڈیا روتھ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری تشدد کی صورت حال کے مدنظر ملک بدری کا سلسلہ ختم کیا جانا چاہیے۔

کیا پناہ گزین اب بھی جرمنی آ رہے ہیں؟

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے لاک ڈاون اور سرحدودں کو بند کیے جانے کے بعد سن 2020 میں گزشتہ برس کے مقابلے پناہ حاصل کرنے کے لیے جرمنی آنے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں تیس فیصد کمی آئی ہے۔

گزشتہ برس جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے صرف 76000  درخواستیں موصول ہوئیں۔ ان میں سے اکثریت شام، عراق اور افغانستان کے شہریوں کی تھی۔

سن 2016 میں جرمنی میں پناہ حاصل کرنے کے لیے سات لاکھ سے زیادہ لوگوں نے درخواستیں دی تھیں جوکہ اس سے ایک برس قبل یعنی 2015 کے مقابلے میں چار لاکھ زیادہ تھیں۔

ج ا / ص ز (ڈی پی اے، اے ایف پی)

فرینکفرٹ میں ملک بدریوں کے خلاف سینکڑوں افراد کا مظاہرہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں