1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی: پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری زیر بحث

شمشیر حیدر
24 اکتوبر 2020

جرمنی میں ہزاروں پناہ گزین ایسے بھی ہیں جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں لیکن ابھی تک انہیں ملک بدر نہیں کیا گیا۔ ڈریسڈن میں مبینہ دہشت گردی کے بعد ملک بدری کے مطالبے پھر سے زور پکڑ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3kNuP
Symbolbild I Abschiebung
تصویر: Daniel Kubirski/picture-alliance

رواں ماہ کے اوائل میں جرمن شہر ڈریسڈن میں نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے تعلق رکھنے والے دو افراد پر چاقو سے حملہ کیا گیا۔ حملے میں زخمی ہونے والا پچپن سالہ شہری ہلاک ہو گیا جب کہ دوسرا شخص شدید زخمی ہوا۔ اس حملے کے شبے میں شام سے تعلق رکھنے والے بیس سالہ شخص کو گرفتار کیا گیا۔ حکام کے مطابق شامی مہاجر شدت پسند نظریات کا حامل تھا اور ایسے ہی نظریات کے باعث وہ ممکنہ طور پر دہشت گردی کا مرتکب ہوا۔

جرمنی سے ایک بار پھر پاکستانی تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری

جرمنی سے غیر ملکیوں کی ملک بدری، ایک سال میں 50 فیصد اضافہ

يہ شامی شہری سن 2015 میں جرمنی آیا تھا اور اس کی پناہ کی درخواست منظور کرتے ہوئے اسے باقاعدہ مہاجر کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ حکام کے مطابق نوجوان شامی مہاجر جرمنی میں کئی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہ چکا تھا۔ اسے مختلف جرائم میں سزا بھی دی جا چکی تھی جن میں داعش کے لیے بھرتیاں کرنے کا الزام بھی شامل تھا۔ اٹھارہ برس سے کم عمر ہونے کے باعث اسے نابالغوں کے لیے بنائے گئے جرمن قوانین کے تحت سزا دی گئی تھی۔

اس شخص کے شدت پسندانہ نظریات کے باعث ستمبر میں جیل سے رہائی کے بعد سے حکام اس پر نظر بھی رکھے ہوئے تھے، لیکن ایسا چوبیس گھنٹے نہیں کیا جا رہا تھا۔ 

بوسنیا میں پاکستانی تارکين وطن کی انسانیت سوز حالت

شامی شہریوں کی جرمنی سے ملک بدری کا معاملہ

گزشتہ برس جرمن حکام نے اس شامی شہری کے جرائم کے باعث مہاجر کا درجہ واپس لے لیا تھا لیکن اسے ملک بدر نہیں کیا گیا تھا۔

جرمن قوانین کے مطابق کسی شخص کو ملک بدر کر کے کسی ایسی جگہ نہیں بھیجا جا سکتا، جہاں اس کی جان کو ممکنہ طور پر خطرہ لاحق ہو۔ اسی قانون کی بنیاد پر سن 2012 سے کسی بھی شخص کی شام ملک بدری پر پابندی عائد ہے۔ مذکورہ شامی شہری بھی اسی پابندی کے باعث ملک بدر نہیں کیا گیا۔

تاہم اب اس تازہ واقعے کے بعد جرمنی سے پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری بالعموم اور خاص طور پر شامی شہریوں کی ملک بدری زیر بحث ہے۔

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر اور چانسلر میرکل کی قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے زیادہ تر ارکان ملک بدر کر کے شام بھیجنے پر عائد پابندی ختم کیے جانے کے حق میں ہیں۔ تاہم بائیں بازو کی جماعتیں ایسے عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں۔ ہورسٹ زیہوفر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ وہ ذاتی طور پر شام کو ملک بدری کے لیے محفوظ قرار دے کر ملک بدری پر عائد پابندیاں ختم کرنے کے حق میں ہیں لیکن وزارت خارجہ کا شام کے بارے میں تجزیہ اس سے مختلف ہے۔

کن ممالک کے پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا؟

شامی پناہ گزینوں کی ملک بدری کے ساتھ ساتھ پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپنے آبائی وطنوں کی جانب واپسی بھی جرمنی میں زیر بحث ہے۔

جرمنی سے افغان شہریوں کی ملک بدری متنازعہ معاملہ رہی ہے۔ ایس پی ڈی اور بائیں بازو کی جماعتیں افغانستان کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں جب کہ وزارت خارجہ کے مطابق افغانستان میں کئی محفوظ علاقے ایسے ہیں جہاں شہریوں کی زندگی خطرے میں نہیں۔ اسی لیے افغان شہریوں کی اجتماعی ملک بدری کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے۔

گزشتہ برس کے دوران جرمنی سے 22 ہزار سے زائد افراد کو ملک بدر کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد البانیا اور نائجیریا کے شہریوں کی تھی۔ پہلے دس ممالک میں پاکستان اور افغانستان بھی شامل ہیں اور گزشتہ برس کے دوران 931 افغان شہری اور 833 پاکستانی شہری جرمنی سے ملک بدر کیے تھے۔

مہاجرین کے لیے چرچ میں پناہ