1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن صدر کا پوٹن کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمے کا مطالبہ

9 اپریل 2022

جرمن صدر شٹائن مائر نے مطالبہ کیا ہے کہ یوکرین کے شہر بوچہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کے باعث روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ یوکرین پر روسی فوجی حملوں کو آج نو اپریل کو ڈیڑھ ماہ ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/49hfe
تصویر: Janis Laizans/REUTERS

جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے جمعہ آٹھ اپریل کو، جب یوکرین پر روسی فوجی حملوں کا 44 واں دن تھا، جرمن نیوز میگزین 'ڈئر اشپیگل‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ روسی سربراہ مملکت کے خلاف جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں مقدمہ چلایا جانا ناگزیر ہو چکا ہے۔

یوکرین: کراماٹوسک ریلوے اسٹیشن پر راکٹ حملے میں درجنوں افراد ہلاک

شٹائن مائر نے کہا، ''روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف کو لازمی طور پر جنگی جرائم کی عدالت کا سامنا کرنا چاہیے۔‘‘ وفاقی جرمن صدر کے الفاظ میں، ''جس کسی پر بھی ان جرائم کے ارتکاب کی ذمے داری عائد ہوتی ہے، اسے ان اقدامات کے لیے جواب دہ ہونا ہو گا۔ اس کا مطلب وہ روسی فوجی بھی ہیں، جنہوں نے یہ حملے کیے اور وہ سیاسی قیادت بھی جس پر ان حملوں کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔‘‘

کریملن سے قریبی تعلقات کے باعث تنقید

وفاقی جرمن صدر نے روسی صدر اور وزیر خارجہ پر جنگی جرائم کے الزماات میں مقدمہ چلانے سے متعلق اپنا جو بہت کڑا بیان دیا ہے، وہ فرانک والٹر شٹائن مائر کی طرف سے یوکرینی جنگ سے متعلق اب تک دیا جانے والا سخت ترین بیان ہے۔

Frank-Walter Steinmeier
جرمن صدر شٹائن مائر کے مطابق روسی صدر پوٹن اور وزیر خارجہ لاوروف کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہیےتصویر: Michael Kappeler/dpa/picture alliance

اس سے قبل جرمن سربراہ ممالکت پر ان الزامات کے ساتھ کافی تنقید بھی کی جاتی رہی تھی کہ ان کے کریملن میں روسی قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور اسی وجہ سے مبینہ طور پر جرمنی کی طرف سے روسی یوکرینی جنگ میں کییف کی حمایت بھی عملاﹰ سست رفتار ہو گئی تھی۔

روس کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے معطل کر دیا گیا

اس پس منظر میں جرمن  صدر نے اپنے انٹرویو میں اعتراف کیا کہ یوکرین پر روسی فوجی حملے نے انہیں بھی کافی حد تک حیران کر دیا تھا۔ وفاقی جرمن صدر کے مطابق، ''میں روسی سیاست میں آنے والی کئی تبدیلیوں کا شاہد رہا ہوں۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے پھر بھی امید تھی کہ ولادیمیر پوٹن کے اقدامات میں کچھ نہ کچھ عقلیت پسندی اور دانش کا کوئی نہ کوئی عنصر تو باقی رہے گا ہی۔‘‘

روسی صدر کے یوکرین سے متعلق عسکری فیصلوں پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن صدر نے کہا، ''مجھے یہ توقع بالکل نہیں تھی کہ روسی صدر اپنے سامراجی پاگل پن کی بنیاد پر کوئی ایسا فیصلہ کریں گے، جس کے ساتھ وہ اپنے ملک کی مکمل سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی تباہی کا خطرہ بھی مول لے لیں گے۔ اسی لیے روس کی طرف سے یوکرین میں فوجی مداخلت میرے لیے ایک دھچکہ تھی۔‘‘

یوکرین میں سینکڑوں شہری ہلاکتیں

روس کی طرف سے یوکرین پر 24 فروری سے شروع کیے گئے فوجی حملوں کے بعد سے اب تک سینکڑوں یوکرینی شہری مارے جا چکے ہیں۔ اس دوران روسی افواج نے یوکرینی ہسپتالوں پر بھی میزائلوں اور توپوں سے حملے کیے۔

جرمنی یوکرینی مہاجرین کو دو ارب یورو بطور مالی امداد دے گا

پھر گزشتہ ہفتے کییف کے ایک نواحی شہر بوچہ سے ایک اجتماعی قبر بھی ملی، جس میں دفن لاشیں ایسے شہریوں کی تھیں، جنہیں رسیوں‍ سے باندھ کر بہت قریب سے فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ ابھی کل جمعے کے روز ہی مشرقی یوکرین کے شہر کراماٹورسک میں ایک ریلوے اسٹیشن پر بھی راکٹوں سے حملے کیے گئے، جن میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہو گئے۔

یوکرین میں روسی جنگ برسوں تک چل سکتی ہے، امریکی جنرل

یوکرین میں اب تک ہونے والی شہری ہلاکتوں اور خاص طور پر بوچہ میں قتل عام کے بعد اجتماعی قبر کی دریافت کے بعد کییف حکومت کی طرف سے روس پر یوکرینی باشندوں کی نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب، دونوں طرح کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ ماسکو میں روسی رہنماؤں کی طرف سے تاہم ان الزامات کی تردید کی جاتی ہے۔

م م / ع آ (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

روسيوں کا انوکھا احتجاج، قومی پرچم ہی بدل ڈالا