1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا تیونس میں آمریت کا دور پھر سے لوٹ رہا ہے؟

14 فروری 2023

تیونس میں حکومت کے ناقد ایک ریڈیو میزبان اور حزب اختلاف کے ایک رہنما گرفتار ہونے والی حالیہ شخصیات میں شامل ہیں۔ قید و بند کی یہ تازہ لہر صدر قیس سعید کی نئی جابرانہ پالیسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4NRok
Tunesien Tunis | Parlamentswahl | Stimmabgabe Präsident Kais Saied
تصویر: Tunisian Presidency via REUTERS

تیونس کی پولیس نے 13 فروری پیر کے روز ملک کے ایک سینیئر سیاستدان اور صدر قیس سعید کے ناقد ریڈیو اسٹیشن کے سربراہ کی گرفتاری کے ساتھ ہی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن مزید تیز کر دیا ہے۔

تیونس پارلیمانی انتخابات میں صرف گیارہ فیصد ووٹ پڑے

تیونس میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی اسلام پسند جماعت النہضہ سے وابستہ رہنما نورالدین بحیری کے وکیل سمیر دلاؤ نے بتایا کہ پولیس نے پیر کے روز ان کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بعد انہیں گرفتار کر لیا۔

تیونس: تبدیلی آئین پر ریفرنڈم کو عوامی حمایت کا دعوی، اپوزیشن نے مسترد کر دیا

ملک کے مقبول ترین ایک اور ریڈیو اسٹیشن موزیق ایف ایم کے سربراہ نورالدین بوطار کے وکیل دلیلہ بن مبارک کا کہنا ہے کہ پیر کے روز ہی ان کے گھر پر بھی پولیس نے پہلے چھاپے مارے اور پھر انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

تیونس: پارلیمانی انتخابات کے دوران مایوسی کا ماحول

بوطار کے ریڈیو اسٹیشن پر اکثر ایسے سیاسی پروگرام نشر ہوتے تھے، جس میں صدر سعید پر تنقید کی جاتی تھی، جبکہ سرکاری نشریاتی اداروں نے صدر کے بیشتر ناقدین کو نشریات کے لیے وقت دینا بند کر دیا ہے۔

تیونس: صدر سعید کی 'آمرانہ حکومت' کے خلاف احتجاجی مظاہرے

اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری کی تازہ لہر

تیونس میں حالیہ ہفتوں میں حزب اختلاف کے متعدد سرکردہ رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اور بوطار اور بحیری کی گرفتاریاں اسی تازہ لہر کے درمیان ہوئی ہیں۔

ہفتے کے اواخر میں پولیس نے طاقتور تاجر کامل الطائف کو گرفتار کیا تھا، جو معزول صدر زین العابدین بن علی کے قریبی دوست تھے۔ النہضہ کے سابق سینیئر رہنما عبدالحمید جیلسی اور سیاسی کارکن خیام ترکی کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

Tunesien I Protest gegen Kais Saed in Tunis
قید و بند اور نظر بندیوں میں یہ حالیہ اضافہ اپوزیشن شخصیات کے ساتھ صدر سعید کے رویے میں ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہےتصویر: Yassine Mahjoub/NurPhoto/picture alliance

گزشتہ برس بحیری کو پہلے ہی دو ماہ کے لیے اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب حکام نے ان پر شام جانے کی کوششوں کے دوران اسلام پسند جنگجوؤں کی مدد کرنے کا الزام لگایا تھا۔

قید و بند اور نظر بندیوں میں یہ حالیہ اضافہ اپوزیشن شخصیات کے ساتھ صدر سعید کے رویے میں ممکنہ تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ اس سے پہلے سیاسی بغاوت کے الزامات کے باوجود بڑے پیمانے پر اس طرح کی اندھا دھند گرفتاریاں نہیں ہوئی تھیں، تاہم اب اس میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

کیا تیونس آمریت کی طرف لوٹ رہا ہے؟

قیس سعید نے جولائی 2021 میں پارلیمان کو بند کرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ شروع کیا اور اس کے کچھ دن بعد حکومت کو بھی پوری طرح سے برطرف کر دیا اور اپنے فرامین کے ذریعے خود حکومت کرنے لگے۔ جب انہوں نے یہ سب کیا تو اس وقت النہضہ پارٹی کا اقتدار تھا۔

اس کے بعد انہوں نے یہ کہتے ہوئے آئین کو دوبارہ ترتیب دینے کا کام شروع کیا کہ ملک کو افراتفری سے بچانے کے لیے یہ سخت اقدامات بہت ضروری ہیں۔

تیونس کے سابق حکمران بن علی نے 23 برس تک ملک پر حکومت کی اور سن 2019 میں جلاوطنی میں انتقال کر گئے۔ وہ ایسے پہلے خود مختار رہنما تھے جن کے خلاف ہونے والی بغاوتوں نے اس خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

تیونس وہ واحد عرب ملک ہے، جہاں بہار عرب کی وجہ سے جمہوریت کی جانب پرامن منتقلی ہوئی تھی۔ تاہم اب ایسا لگ رہا ہے، جیسے وہاں پھر سے آمریت واپس ہو رہی ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

تیونس میں سیکس ایجوکیشن، ایک ممنوع موضوع