توہین مذہب کے الزام میں قتل، ورثا نے ملزم کو معاف کر دیا
19 ستمبر 202452 سالہ عبدالعلی عرف سخی لالہ کو گزشتہ ہفتے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایک پولیس افسر سعید محمد سرحدی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ یہ واقعہ پولیس کی سخت سکیورٹی کے باوجود پیش آیا۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ سرحدی نے خود کو عبدالعلی کا رشتہ دار کہہ کر اس تک رسائی حاصل کی تھی۔
توہین مذہب کے الزام پر قتل، ہجوم میں شامل 23 افراد گرفتار
سرگودھا میں مسیحیوں پر حملہ، مزید گرفتاریاں اور مقدمات
ایک بزرگ فیض اللہ نورزئی نے اس موقع پر کہا کہ ان کا قبیلہ عبدالعلی سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہے، '' ہم اور ہمارے خاندان والے ایسے لوگ ہیں جو نبی اور ان کے احترام کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں۔‘‘
مسلم اکثریتی پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ ریاست کی جانب سے اس جرم میں ابھی تک کسی کو بھی پھانسی نہیں دی گئی ہے لیکن درجنوں ملزمان مقدمے سے پہلے ہی ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس طرح کے قتل کی اکثر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ عبدالعلی کے مبینہ قاتل کے والد حاجی داد محمد کے گھر گزشتہ ہفتے سے لوگ مبارک باد دینے آ رہے ہیں۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کا کہنا ہے کہ جنوب ایشیائی ملک پاکستان دنیا میں توہین مذہب کے سخت ترین قوانین کو نافذ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔
توہین مذہب کے الزامات کی وجہ سے گزشتہ سال مشرقی صوبہ پنجاب میں مسیحی بستیوں پر حملے کرنے والے ہجوم نے کئی گرجا گھروں کو نذر آتش کیا تھا اور سینکڑوں افراد کو بے گھر کر دیا تھا۔
ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ عبدالعلی کے اہل خانہ کی معافی کی درخواست پر عدالت غور کرے گی اور فیصلہ کرے گی کہ آیا افسر کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے یا نہیں۔
پولیس کے ایک تفتیش کار کے مطابق علی کی مبینہ توہین مذہب کا محور سیاست اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ان کی دلیل تھی۔
اس حوالے سے ان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد عبدالعلی کو پولیس نے حراست میں لے کر ایک پولیس اسٹیشن پہنچا دیا تھا تاہم اس کے باہر لوگوں کا ہجوم جمع ہونے کے سبب انہیں ایک زیادہ محفوظ پولیس اسٹیشن منتقل کیا تھا۔
ا ب ا/ش ر (روئٹرز)