1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروت میں ہلاکت خیز حملے، ذمہ دار سنی شدت پسند گروہ

عاطف بلوچ19 فروری 2014

القاعدہ سے وابستہ عبداللہ عزام بریگیڈ نے بیروت کے شیعہ اکثریتی آبادی والےایک علاقے میں آج کیے گئے دوہرے خود کش بم حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حکام کے مطابق ان حملوں میں کم ازکم چار افراد ہلاک جبکہ ستر زخمی ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1BBVQ
تصویر: picture-alliance/AP Photo

لبنان کے شدت پسند مسلمانوں کے گروپ عبداللہ عزام بریگیڈ نے آج بدھ کے دن بیروت میں کیے گئے دوہرے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے علاوہ انیس نومبر کے اُس حملے کو بھی اپنی ہی کارروائی قرار دیا ہے، جس میں لبنانی دارالحکومت میں واقع ایرانی سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اُس واقعے میں بھی دوہرا خود کش حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں 23 افراد مارے گئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے بتایا ہے کہ اس گروہ نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں خبردار کیا ہے کہ اگر شیعہ تنظیم حزب اللہ نے شام میں فعال اپنے جنگجو واپس نہ بلائے تو ایسے مزید حملے کیے جائیں گے۔

Libanon Bombenanschlag in Beirut 19.02.2014
خود کش حملوں میں بیروت میں واقع ایرانی کلچرل سینٹر کو نشانہ بنایا گیاتصویر: Reuters

یہ بات اہم ہے کہ لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے سیکنڑوں جنگجو شام میں صدر بشار الاسد کی فورسز کے شانہ بشانہ باغیوں کے خلاف محاذ آرا ہیں۔ اس تناظر میں عبداللہ عزام بریگیڈ نے اپنے پیغام میں کہا، ’’ہم اس وقت تک ایران اور لبنان میں حزب اللہ کے سکیورٹی، سیاسی اور عسکری مراکز پر اپنے حملے جاری رکھیں گے، جب تک ہمارے دو مطالبات منظور نہیں کیے جاتے۔ پہلا مطالبہ یہ ہے کہ شام سے حزب اللہ کے جنگجو واپس بلائے جائیں اور دوسرا یہ کہ لبنان میں مقید ہمارے تمام ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔‘‘

روئٹرز نے بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ کے دن کیے گئے خود کش حملوں میں شہر میں ایرانی کلچرل سینٹر کو نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس کارروائی میں دو خود کش حملہ آور شریک ہوئے، جن میں سے ایک کار میں جبکہ دوسرا ایک موٹر سائیکل پر سوار تھا۔ انیس نومبر کو ایرانی سفارتخانے پر بھی ایسی ہی حکمت عملی کے ساتھ حملہ کیا گیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق دھماکے اتنے شدید تھے کہ گرد و نواح کے مکانات کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ جہاں حملے کیے گئے ہیں، وہاں قریب ہی ایک یتیم خانہ بھی تھا۔ روئٹرز نے بتایا ہے کہ حملوں کے نتیجے میں بچے خوفزدہ ہو گئے۔ ہلاک شدگان میں متعدد بچے بھی شامل ہیں۔

شامی خانہ جنگی نے لبنان پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں، جو ابھی تک سن 1975 سے 1990ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے اثرات پر قابو پانے کی کوشش میں ہے۔ شامی باغیوں کی زیادہ تر تعداد سنی فرقے سے تعلق رکھتی ہے جب کہ صدر اسد کا تعلق علوی مسلک سے ہے، جو شیعہ اسلام کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ جب سے شام میں بحرانی حالات پیدا ہوئے ہیں، تب سے لبنان میں بھی سنی جنگجو زیادہ فعال ہو گئے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں