1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کم از کم منافع بخش قیمتوں کے لیے نئی قانون سازی کا مطالبہ

14 مارچ 2024

بھارتی کسان حکومت سے ان کے قرضے معاف کرنے سمیت دوہزار اکیس میں ہونے والے مظاہروں کے دوران ان پردائر کیے گیے مقدموں کو واپس لینے کے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے بھی احتجاج کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4dWvP
Indien | Bauern Proteste im Grenzgebiet Shambhu
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images

ہزاروں کسانوں نے بسوں اور ٹرینوں میں جمعرات کے روز  بھارتی  دارالحکومت کی جانب رخ کیا جس کا مقصد فصلوں کی کم از کم منافع بخش قیمتوں کی ضمانت کے لیے نئی قانون سازی کا مطالبہ کرنا تھا۔

شہر میں ان کے کئی ہفتے تک داخلے پر پابندی اور حکام کی جانب سے رُکاوٹوں کے بعد انہوں نے اپنے ٹریکٹر استعمال کرنے سے گریز کیا۔ نئی دہلی کی شاہراہوں کوسیمنٹ کے بلاکس اور خاردار تاروں کے ساتھ بند کر دیا گیا اور دارالحکومت میں ان کو جلسے کی اجازت اسی شرط پر دی گئی کہ وہ اپنے ٹریکٹرساتھ نہیں لائیں گے اور پولیس کے ساتھ تصادم اور جھڑپوں سے بچنے کے لیے انہیں لاٹھیاں اور تلواریں بھی ساتھ لانے سے منع کر دیا گیا۔

مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مفت بجلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

Indien | Bauern Proteste im Grenzgebiet Shambhu
کسانوں کی جانب سےمظاہرے ایسے وقت میں کئے جارہے ہیں جب آئندہ قومی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت مسلسل تیسری بارجیت کی توقع کررہی ہےتصویر: Elke Scholiers/Getty Image

انہوں نے اس بات پرزوردیا کہ ان کی فصلوں کی قیمت کی ضمانت نہ ملی تو وہ منڈیوں کے رحم و کرم پر ہوں گے اور یہ ان کے لیے کسی تباہی سے کم نہ ہوگا۔ خاص طور پران دو تہائی افراد کے لیے جو ایک ہیکٹر سے کم اراضی کے مالک ہیں ،اس ریلی کا اہتمام  یونائیٹڈ فارمرزفرنٹ کی جانب سے رمیلیا گراؤنڈ میں کیا گیا جہاں عموماً بڑی مذہبی سیاسی اور تفریحی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق پولیس نے کسانوں کو اس شرط پربھی ریلی کی اجازت دی تھی کہ وہ پانچ ہزار سے زائد افراد کوساتھ نہیں لائیں گے۔

کسانوں  کے مظاہرے بھارت کے لیے ایک نازک وقت پر کیے جا رہے ہیں۔ آئندہ انتخابات اپریل / مئی میں ہونے جا رہے ہیں ۔ ان قومی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت مسلسل تیسری بارجیت کی توقع کررہی ہے ۔ کسان انڈیا میں اپنی بڑی تعداد کی وجہ سے ووٹنگ کے حوالے سے ایک بااثربلاک ہیں ۔ انڈیا کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کے ایک اعشاریہ چار بلین افراداپنی زندگی گزارنے کے لیے کھیتی باڑی پر انحصار کرتے ہیں ۔

کسان حکومت سے ان کے قرضے معاف کرنے سمیت دوہزار اکیس میں کیے گئے  مظاہروں کے دوران اُن پردائر کیے گیے مقدموں کوواپس لینے کے وعدوں کو پورا کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ اس ڈیڈ لاک کوختم کرنے کے لیے اس سے پہلے بھی کئی بار بات چیت ہوئی جو ناکام رہی ہے ۔

Indien Shambhu | Bauernproteste | Protestierende Landwirte stehen der Polizei gegenüber
21 فروری کو کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں مظاہرین میں ایک شخص کی ہلاکت ہو گئی تھی تصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

دہلی سے لگ بھگ دو سو کلومیٹر دوری پرواقع ایک قصبے شمبھو میں بھی ہزاروں  کسان  احتجاج کررہے ہیں۔حکام کی جانب سے تیرہ فروری سے نئی دہلی جانے والی شاہراہوں کو کسانوں کوآنے سے روکنے کے لیے سیمنٹ کے بلاکس ،دھاتی کنٹینرز،اور لوہے کی خاردار تاروں سے بند کردیا گیا ہے، لیکن کسان یہاں داخل ہونے کے لیے اپنے ساتھ بلڈوزر اور کھدائی کرنے والی مشینیں لے کرآئے ہیں

21 فروری کو کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں مظاہرین میں ایک شخص کی ہلاکت ہو گئی تھی ۔ فصلوں کی قیمتیوں کے حوالے سے ضمانت دیے جانے کے مطالبہ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کے بعد کسانوں نے ہندوستانی دارالحکومت کی طرف اپنا مارچ دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی۔

ہریانہ پولیس کے مطابق مظاہرین کے حملے میں بارہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ان پر لاٹھیوں سے حملہ کیا گیا اور پتھر برسائے گئے ۔ کسانوں نے اپنا احتجاج روک دیا اورپنجاب اور ہریانہ ریاستوں کے درمیان سرحد کے قریب شمبھو قصبے میں بھوک ہڑتال کی۔

بھارت میں آبپاشی کے لیے موبائل سولر پاور کا استعمال

ان کی یونینز حکومتی وزراء کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں۔ جواس پانچ سالہ معاہدے کی تجویز مسترد کرچکی ہیں جس میں انہیں چند فصلوں جن  میں مکئی، اناج ، پھلیاں ، اورکپاس کی قیمتوں کی ضمانت دی گئی ہے۔

دو سال پہلے، دسیوں ہزار کسانوں نے نئی دہلی کے مضافات میں ڈیرے ڈالے اورمودی کواس کی حکومت میں ایک بڑی تبدیلی کے لیے زراعت کے نئے قوانین کو منسوخ کرنے پرمجبورکیا۔ مارچ کی قیادت کرنے والے کسانوں میں سے ایک جگجیت سنگھ دلیوال نے کہا وہ کوئی تشدد نہیں چاہتے تھے لیکن وفاقی حکومت کی بڑے پیمانے پرحفاظتی اقدامات کی  مذمت کرتے ہیں۔

احتجاج کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کسان نئی قانون سازی کے خواہاں ہیں۔ جو تئیس فصلوں کی کم از کم قیمتوں کی ضمانت دے ۔ کسانوں کا ماننا ہے کہ اس سے ان کی آمدنی کو مستحکم ہو گی۔

واضح رہے کہ  دوہزار بیس میں انڈیا میں کی جانے والی زرعی  اصلاحات  کے بعد سے وہاں کسانوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

ف ن/ ک م(اے پی)