1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی کسانوں کا دہلی مارچ اور پر تشدد جھڑپیں

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
13 فروری 2024

کسانوں کے 'دہلی چلو' مارچ کے پیش نظر دارالحکومت کی سرحدوں اور اس سے متصل پورے خطے میں سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ کسانوں نے ہریانہ اور پنجاب کی سرحد عبور کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔

https://p.dw.com/p/4cLIn
بھارتی کسان دہلی کی سرحدوں پر
کسان دہلی کی سرحدوں پر بھاری رکاوٹوں سے بے خوف خطر ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ موقع ملتے ہی محض نصف گھنٹے کے اندر ہی وہ ان رکاوٹوں توڑ دیں گےتصویر: Adnan Abidi/REUTERS

بھارت میں کسانوں کے اہم مطالبات کے حوالے سے حکومت اور کسان یونین کے درمیان پیر کے روز بات چیت ناکام ہوجانے کے بعد منگل کے روز 'دہلی چلو' احتجاجی مظاہرے کا آغاز ہوا، جسے روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل داغے اور انہیں منتشر کرنے کی کوشش کی۔

بھارت میں کسان اتنی بڑی تعداد میں خودکشی کیوں کر رہے ہیں؟

مظاہرین حکومت کی تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے، جب پنجاب اور ہریانہ کی سرحد کو عبور کرنے کی کوشش کر رہے تھے، تبھی شمبھو بارڈر کے قریب ان کے خلاف پولیس نے کارروائی کی۔ اس سے پہلے پیر کی رات دیر گئے کسان رہنماؤں اور مرکزی وزراء کے درمیان ایک اہم میٹنگ کسی نتیجے کے بغیرختم ہو گئی تھی۔

بھارتی کسانوں نے متنازعہ زرعی اصلاحات کے خلاف ایک سالہ طویل احتجاج ختم کر دیا

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ زیادہ تر معاملات پر اتفاق رائے ہو گیا تھا اور جن مسائل پر اختلافات برقرار تھے، ان کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تشکیل دینے کا فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔

بھارتی کسانوں کا احتجاجی مظاہرہ: پرتشدد واقعے میں آٹھ ہلاکتیں

کسانوں کے احتجاج کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر زراعت ارجن منڈا نے کہا، ''حکومت کو ایسی معلومات مل رہی ہیں کہ بہت سے لوگ ماحول کو آلودہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، میں کسانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ایسے عناصر سے ہوشیار رہیں۔''

دہلی سخت حفاظتی حصار میں

کسان رہنما سرون سنگھ پنڈھر نے مرکزی وزراء کے ساتھ پانچ گھنٹے کی میٹنگ کے بے نتیجہ رہنے کے بعد دہلی چلو مارچ کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت ہمارے کسی بھی مطالبے پر سنجیدہ ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ہمارے مطالبات کو پورا کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔ اگر حکومت ہمیں کچھ بھی پیش کرتی، تو ہم اپنے احتجاج پر دوبارہ غور کر سکتے تھے۔''

سڑکوں پر سکیورٹی فورسز
دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پور کی سرحدوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، جہاں سڑکوں کے بیشتر حصوں کو کنکریٹ کے بلاکس سے روکا گیا ہےتصویر: Manish Swarup/AP Photo/picture alliance

کسانوں کے احتجاج کے پیش نظر مودی حکومت نے دہلی شہر میں تمام طرح کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی ہے اور دہلی پولیس نے حفاظتی اقدامات کو مزید تیز کر دیا ہے۔ دارالحکومت میں نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے دہلی کی تمام سرحدوں کو سیل کرنے کے ساتھ ہی دفعہ 144 کو نافذ کر دیا گیا ہے۔

بھارتی پارلیمان کے نزدیک ہی کسانوں کا انوکھا احتجاج  

دہلی سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پور کی سرحدوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، جہاں سڑکوں کے بیشتر حصوں کو کنکریٹ کے بلاکس سے روکا گیا ہے اور اسے مزید مضبوط کرنے کے لیے خاردار تاروں کی باڑ بھی لگائی گئی ہے اور سڑکوں پر نکیلی میخیں گاڑ دی گئی ہیں۔

لیکن کسان دہلی کی سرحدوں پر بھاری رکاوٹوں سے بے خوف خطر ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ وہ موقع ملتے ہی محض ''نصف گھنٹے کے اندر ہی ان رکاوٹوں توڑ دیں گے۔''

راستوں پر بندش کی وجہ سے دہلی کے آس پاس کے تمام راستوں پر ٹریفک جام ہے اور ہر جانب بھیڑ کی وجہ سے افراتفری کا ماحول ہے۔ منگل کے روز دہلی کو غازی آباد اور اتر پردیش کے نوئیڈا سے جوڑنے والے راستوں پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں دیکھی گئیں۔

دہلی کے نواحی علاقوں میں ٹریفک جام
منگل کے روز دہلی کو غازی آباد اور اتر پردیش کے نوئیڈا سے جوڑنے والے راستوں پر گاڑیوں کی لمبی لائنیں دیکھی گئیںتصویر: AP Photo/picture alliance

کہا جا رہا ہے کہ کسان ٹریکٹر اور ٹرالیوں کے ساتھ دہلی پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ تقریبا چھ ماہ کا سامان بھی ہے تاکہ طویل دھرنے کی صورت میں انہیں کوئی پریشانی نہ ہو۔

کسانوں کے مطالبات کیا ہیں؟

اس احتجاجی مظاہرے میں 200 سے بھی زیادہ کسان یونین شامل ہیں اور ان کے اہم مطالبات میں سے ایک یہ ہے کہ حکومت فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی ضمانت کے لیے ایک قانون وضع کرے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنے والے کسانوں کے لیے یہ ایک اہم لائف لائن ہے۔

اہم نکات میں بجلی ایکٹ سن 2020 کی منسوخی اور احتجاج کے دوران لکھیم پور کھیری میں ہلاک ہونے کسانوں کے لیے معاوضہ، نیز کسانوں کی تحریک میں شامل افراد کے خلاف مقدمات واپس لینے جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔

19 نومبر سن 2021 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے اپنی حکومت کے وضع کردہ ان تین متنازعہ قوانین کو

 منسوخ کر دیا تھا، جس کے خلاف کسان احتجاج کر رہے تھے۔ اس کی وجہ سے کسانوں نے دہلی کی سرحدوں پر تیرہ ماہ سے جاری اپنی احتجاجی تحریک کو ختم کر دیا تھا۔

بھارت میں کسان تحریک کو ایک سال مکمل ہو گیا