1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کیا حزب اختلاف کا اتحاد بی جے پی کو قابو کر سکے گا؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
18 جولائی 2023

بھارت کی اپوزیشن جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے میٹنگ کر رہی ہیں۔ تاہم وزیر اعظم مودی نے حزب اختلاف کی اس میٹنگ پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4U3AN
Indien | Wahlen im Bundesstaat Karnataka | Sonia Gandhi
تصویر: Manjunath Kiran/AFP/Getty Images

بھارت میں حزب اختلاف کی تقریباً 26 جماعتوں کے سرکردہ رہنما آئندہ عام انتخابات سے متعلق حکمت عملی تیار کرنے کے لیے جنوبی شہر بنگلورو میں ایک اہم اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔

سابق بھارتی رکن پارلیمان بھائی سمیت ڈرامائی حملے میں قتل

اس کے جواب میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی نے منگل کے روز ہی نئی دہلی میں ایک بڑے اجلاس کی میزبانی کا اعلان کیا ہے، جس میں ملک کی تقریباً 36 چھوٹی بڑی جماعتوں کی شرکت کی امید ہے۔ 

پلوامہ حملہ کیسے ہوا؟ کیا الیکشن لڑنے کے لیے ایسا کیا گیا؟

حزب اختلاف کا ایجنڈا کیا ہے؟

بنگلورو میں حزب اختلاف کے دو روزہ اجلاس کے پہلے دن کانگریس پارٹی کی سرکردہ رہنما سونیا گاندھی نے عشائیہ دیا تھا اور منگل کے روز بند کمرے میں تمام رہنما حکمت عملی سے متعلق مذاکرات کر رہے ہیں۔

’ہندو‘ ایک گندہ اور توہین آمیز لفظ ہے، بھارتی اپوزیشن لیڈر

اس اجلاس میں سونیا گاندھی، راہول گاندھی، کانگریس پارٹی کے صدر ملک ارجن کھرگے، ریاست تمل ناڈو، بہار، دہلی، مغربی بنگال اور جھار کھنڈ کے وزرائے اعلیٰ ایم کے اسٹالن، نتیش کمار، اروند کیجریوال، ہیمنت سورین، ممتا بنرجی اور آر جے ڈی کے سربراہ لالو پرساد یادو اور شرد پورا جیسے سرکردہ رہنما حصہ لے رہے ہیں۔

کانگریس انتخابات اور جنوبی ایشیا میں موروثی سیاست کا مستقبل

پہلی بار کانگریس کے علاوہ 25 دیگر جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئی ہیں اور اس کا مقصد آئندہ برس مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا مقابلہ کرنا ہے۔ سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ گزشتہ عام انتخابات میں بی جے کو محض 36 فیصد ووٹ حاصل ہوا تھا اور اس کی کامیابی اہم وجہ اپوزیشن میں انتشار تھا۔

'ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں'، بھارتی دانشور

بھارتی ذرائع ابلاغ میں اس طرح کی خبریں نشر کی جا رہی ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ کانگریس پارٹی کی سابق صدر سونیا گاندھی کو اس نئے اتحاد کا صدر اور بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کو کنوینر نامزد کیا جائے گا۔

بھارتی سیاست کی سیاہ کاریاں

بی جے پی کے خلاف اتحاد کی ان کوششوں کے درمیان اس بات پر شکوک و شبہات کے بھی بادل ہیں کہ دو درجن سے زائد ان جماعتوں کے درمیان بہت سے امور پر اختلافات ہیں اور ماضی میں یہ سب ایک دوسرے کی سخت حریف بھی رہ چکی ہیں۔

کیا بھارت کا کثیر جہتی اور رنگارنگ سیکولر کردار بحال ہو سکتا ہے؟

مودی کی نکتہ چینی

جس وقت بنگلورو میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس چل رہا تھا، اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی ایک نئے ایئر پورٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔ اس موقع پر وہ حزب اختلاف کے اجلاس پر جم کر برسے۔

ان کا کہنا تھا، ''لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ اجتماع کرپشن کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ تمل ناڈو میں بدعنوانی کے معاملات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے ڈی ایم کے کو کلین چٹ دی ہے۔ بائیں بازو کی جماعتیں اور کانگریس اپنے کیڈر پر حملوں کے باوجود بھی مغربی بنگال میں پنچایت انتخابات کے تشدد پر خاموش ہیں۔''

کانگریس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ان کے لیے خاندان سب سے پہلے ہے، قوم کچھ بھی نہیں ہے۔ بدعنوانی سے وہ تحریک حاصل کرتے ہیں۔ جتنا بڑا گھپلہ اتنی ہی بڑی بدعنوانی اور کرنے والے کو اتنا ہی اعلی عہدہ ملتا ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''جمہوریت کا مطلب عوام کے لیے، عوام کے ذریعے اور عوام کی خاطر ہے۔ لیکن اپوزیشن کا منتر، خاندان کے لیے، خاندان کے ذریعے، خاندان کی خاطر ہے۔''

بی جے پی کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ

بنگلورو میں ہونے والی حزب اختلاف کی میٹنگ کے جواب میں ہندو قوم پرست حکمران جماعت کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) دارالحکومت دہلی میں ایک میٹنگ کر رہا ہے، جس میں کچھ نئے اتحادیوں کے شامل ہونے کا بھی امکان ہے۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ این ڈی اے کے اجلاس میں کل 38 پارٹیاں شرکت کر رہی ہیں، جس سے پارٹی اپنی زبردست سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مودی کی دوسری حکومت کی چار برس کی میعاد کے دوران این ڈی اے کی اس طرح کی یہ پہلی میٹنگ ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ چونکہ اپوزیشن جماعتیں سن 2024 کے عام انتخابات سے قبل اتحاد قائم کرنے کے لیے میٹنگ کر رہی ہیں، اس لیے بی جے پی نے بھی اپنے اتحاد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

این ڈی اے کی میٹنگ میں بی جے پی کے کئی نئے اتحادیوں کی شمولیت کا بھی امکان ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی سیاسی حیثیت ختم ہوتی ہوئی؟