1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: نوآبادیاتی فوجداری قوانین ختم، 'سودیشی' قوانین نافذ

جاوید اختر، نئی دہلی
1 جولائی 2024

بھارت میں برطانوی دور کے فوجداری قوانین کی جگہ یکم جولائی سے ملکی فوجداری قوانین نافذ ہو گئے۔ غیر بی جے پی حکومت والی کئی ریاستوں نے اس کی مخالفت کی ہے لیکن مرکز کا کہنا ہے کہ وہ اس میں اپنے طورپر ترمیم کے لیے آزاد ہیں۔

https://p.dw.com/p/4hjBr
وزیر داخلہ امیت شاہ نے نئے فوجداری قوانین کو وقت کی ضرورت قرار دیا
وزیر داخلہ امیت شاہ نے نئے فوجداری قوانین کو وقت کی ضرورت قرار دیاتصویر: STR/AFP/Getty Images

برطانوی دور کے فوجداری قوانین کی جگہ تین فوجداری قوانین بھارتیہ نیائے سمہیتا (بی این ایس)، بھارتیہ ناگرک سرکشا سمہیتا (بن این ایس ایس) اور بھارتیہ شاکچھ سمہیتا (بی ایس اے) آج پیر یکم جولائی سے نافذ ہو گئے۔ اس قانون کو گزشتہ سال پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے صوتی ووٹوں سے منظور کیا تھا۔ اس پر صرف پانچ گھنٹے میں بحث مکمل کرلی گئی تھی۔ اس وقت پارلیمنٹ کے 140سے زائد اپوزیشن اراکین معطل تھے۔

بھارت: برطانوی دور کے فوجداری قوانین میں بڑی تبدیلیاں

بھارت میں نظام عدل کی بنیاد بدل دینے والے قوانین منظور

کئی غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے ان قوانین کی مخالفت کی ہے۔ اتوار کے روز مرکزی حکومت کے حکام نے کہا کہ ریاستی حکومتیں بھارتی فوجداری قوانین میں اپنی طرف سے ترمیم کے لیے آزاد ہیں۔

ماہرین قانون نے نئے قوانین پراعتراضات کیے ہیں۔ سپریم کورٹ کی وکیل اپرنا بھٹ کہتی ہیں کہ نئے قوانین کے بعض شقیں ایسی ہیں جو آنے والے دنوں میں مسائل پیدا کرسکتی ہیں۔

اپرنا بھٹ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان قوانین کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے عام لوگوں کو پریشانی ہوسکتی ہے۔

بھارت میں سڑک حادثات پر نئے قانون کی مخالفت کیوں؟

بھارت میں صحافت کا گلا گھونٹنےکے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال؟

بھٹ کا کہنا تھا،"جب آپ اتنے پرانے قوانین بدل رہے تھے اور قانون کی کئی ایسی شقیں جو اب غیر ضروری ہو چکی ہیں، ان پر غور کیا جانا چاہئے تھا۔ ساتھ ہی نئے جرائم مثلاً سائبر کرائم پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے تھی کیونکہ اس سے بڑی تعداد میں عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔"

ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے عام لوگوں کو پریشانی ہو سکتی ہے
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے عام لوگوں کو پریشانی ہو سکتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/I. Mukherjee

نئے قوانین'سزا' کے بجائے'انصاف' پر مرکوز، وزیر داخلہ

وزیر داخلہ امیت شاہ نے تاہم نئے فوجداری قوانین کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ نوآبادیاتی دورکے قوانین کے برعکس نئی قانون سازی انصاف کی فراہمی کو ترجیح دتی ہے جب کہ پرانے قوانین تعزیری کارروائیوں پر مرکوز تھے۔

انہوں نے کہا، "آزادی کے 77سال بعد ہمارا فوجداری انصاف کا نظام مکمل طورپر سودیشی(ملکی) ہو رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا،"اب دنڈ (سزا) کے بجائے نیائے(انصاف) اور تاخیر کے بجائے تیز ٹرائل اور فوری انصاف ہوگا۔ پہلے صرف پولیس کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا تھا لیکن اب متاثرین اور شکایت کنندگان کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے گا۔"

گزشتہ ہفتے مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی اور تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کے ایم اسٹالن نے امیت شاہ کو خط لکھ کر ان قوانین کو نافذ نہیں کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ نوآبادیاتی دورکے قوانین کے برعکس نئی قانون سازی انصاف کی فراہمی کو ترجیح دیتی ہے
وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ نوآبادیاتی دورکے قوانین کے برعکس نئی قانون سازی انصاف کی فراہمی کو ترجیح دیتی ہےتصویر: Ravi Batra/ZUMA Press Wire/picture alliance

نئے فوجداری قوانین میں کیا ہے؟

نئے فوجداری قوانین کے اہم نکات میں وارداتوں کی آن لائن رپورٹ کرنا، کسی بھی تھانے پر ایف آئی آر (یعنی زیرو ایف آئی آر) درج کرنا، ایف آئی آر کی بلاقیمت نقل فراہم کرنا، گرفتار ہونے پر اطلاع کا حق، گرفتاری کی اطلاع کو عام کرنا، فارینزک شواہد اکٹھاکرنا اور ویڈیو گرافی شامل ہیں۔اس کے علاوہ متاثرہ خواتین اور بچوں کے لیے مفت طبی علاج، الیکٹرانک سمن، متاثرہ خاتون کا خاتون مجسٹریٹ کے سامنے بیان، بیانات کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ وغیرہ شامل ہے۔

تاہم پولیس ریمانڈ کی مدت 15دنوں سے بڑھا کر 60 یا 90 دن کی جاسکتی ہے۔ اتنی طویل پولیس ریمانڈ پر ماہرین قوانین تشویش ظاہر کررہے ہیں۔ دہشت گردانہ کارروائیوں کو بھی اب بی این ایس میں شامل کردیا گیا ہے، پہلے یہ غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام قانون کا حصہ تھا۔

اب موت کی سزا یافتہ شخص ہی اپنے طورپر رحم کی درخواست دائر کرسکتا ہے۔ پہلے کسی این جی او یا سول سوسائٹی گروپ کو بھی قصوروار کی طرف سے رحم کی درخواست دائر کرنے کا اختیار تھا۔