1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کورونا وائرس:جائیں تو جائیں کہاں

26 مارچ 2020

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی کورونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی موت ہوگئی ہے جبکہ مجموعی طور پر ملک میں اب تک 16 افراد کے ہلاک اور ساڑھے چھ سو کے قریب متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3a3sD
Indien Coronavirus
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Swarup

بھارت میں کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوشش کے تحت حکومت کی طرف سے اکیس روزہ لاک ڈاون کے آج دوسرے روزملک کے مختلف علاقوں سے افراتفری کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔ ملکی سطح پر کرفیو جیسی صورتحال سے ضروری اشیاء کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور اس کی مار سب سے زیادہ غریب افرادپر پڑرہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ جائیں تو جائیں کہاں۔

اس دوران بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی کورونا وائرس سے متاثرہ ایک شخص کی موت ہوگئی جس کے ساتھ ہی اس وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر سولہ ہوگئی ہے جب کہ ساڑھے چھ سو افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے۔

 حکومت نے پچیس مارچ سے تین ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔ ملکی سطح پر کرفیو جیسی صورتحال حال سے ضروری اشیاء کی سپلائی بری طرح متاثر ہورہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر غریبوں پر پڑرہا ہے۔ حکومت نے حالانکہ غریبوں کے لیے مالی امداد کا اعلان کیا ہے تاہم اپوزیشن نے ناکافی قرار دیا ہے۔

 وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کورونا سے پیدا صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک لاکھ ستّر ہزار کروڑ روپے کے خصوصی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا، '' اس کا مقصد غریب، گھر سے باہر رہنے والے مزدور اور ضرورت مند پسماندہ طبقے تک ضروری اشیاء، غذا اور پیسہ پہنچانا ہے تاکہ وہ اس مشکل وقت میں اپنی ضروریات کے مطابق استعمال کرسکیں اور کوئی بھی شخص بھوکا نہ رہے۔''حکومت کا کہنا ہے کہ اس امدادی پیکج کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔ 

Indien Kalkutta Migranten Arbeiter Coronavirus Covid-19 Gastarbeiter
دور دراز علاقوں سے شہروں  میں آکر کام کرنے والے افراد لاک ڈاؤن سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں جن کے پاس بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہےتصویر: Reuters/R. De Chowdhuri

 لیکن کرفیو جیسی صورتحال میں لوگ بینکوں سے رابطہ کیسے کریں گے یا پھر جن افراد کے بینکوں میں کھاتے ہی نہیں انہیں یہ اضافی پیسہ کیسے پہنچے گا، غذائی اجناس کی فراہمی کیسے ہوگی اور جب کورونا وائرس کے سبب  بیشتر افراد گھر سے کام کر رہے ہیں، یا پھر بہت سے نہیں کر رہے ہیں تو کیا بینکوں پر اضافی دباؤ نہیں پڑے گا؟  اس طرح کے بہت سے سوالات کے جواب حل طلب ہیں۔ 

 بھارتی معیشت کو یوں بھی سست رفتاری کا سامنا تھا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں مختلف صنعتوں کو زبردست مندی کا سامنا ہے وہیں بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ تقریبا تمام بڑے شہروں میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوگئے ہیں اور آجرین ملازمین کو کمپنیوں سے نکالنے لگے ہیں۔ ایسے بیشتر افراد کے پاس نہ تو رہنے کی جگہ ہے اور نہ ہی کھانے کا بند و بست ہے۔ دور دراز علاقوں سے شہروں  میں آکر کام کرنے والے افراد لاک ڈاؤن سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں جن کے پاس بنیادی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ یو پی، بہار اور مغربی بنگال جیسی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لاکھوں افراد اپنے گاؤں واپسی کے لیے بے چین ہیں۔ بسں، ریل اور نقل و حمل کے دیگر ذرائع بند پڑے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے گھروں تک پہنچنے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر پیدل طے کرنا شروع دیا ہے۔

 کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دارالحکومت دہلی میں حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے محلّہ کلینک کا ایک ڈاکٹر اور اس کے اہل خانہ کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں، جس کے بعد ڈاکٹر سے ربط میں آنے والے تقریبا نو سو افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

دریں اثنا وزیر اعظم نریندر مودی کورونا وائرس کے حوالے سے جی۔20ممالک کے رہنماوں کی آج ہونے والی ورچوول میٹنگ میں شرکت کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید