بھارت: ملک گیر ہڑتال سے معمولات زندگی متاثر
8 جنوری 2020مغربی بنگال اور کرناٹک میں ہڑتال کے دوران تشدد کے واقعات پیش آئے۔ مغربی بنگال میں مظاہرین نے کئی مقامات پر ریلوے ٹریک جام کردیا جس کی وجہ سے کئی درجن ٹرینوں کو منسوخ کرنا پڑا۔ کرناٹک میں ہڑتال کے دوران بسوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
مزدور یونینوں کے مطابق یہ ہڑتال بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی نریندر مودی حکومت کی عوام اور مزدور دشمن پالیسیوں کے خلاف کی گئی ہے۔ ہڑتال کی اپیل کرنے والی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ غیرمنظم سیکٹر کے مزدوروں کی ماہانہ تنخواہ کم از کم 21 ہزار روپے کی جائے، انہیں یکساں کام کے لیے یکساں تنخواہ دی جائے۔ اس کے علاوہ وہ ریلوے، پٹرولیم، ڈیفنس، انشورنس اور فضائی سیکٹر میں نجکاری کی بھی مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت لیبر کوڈ کے نام پر لیبر قوانین میں تبدیلی کر کے مزدوروں کے مفادات کو نقصان پہنچانے اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ مودی حکومت لیبر اور مزدوروں سے متعلق موجودہ 44 قوانین کو ختم کر کے ان کی جگہ ایک نیا لیبر کوڈ لانے پر غور کر رہی ہے۔ اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں مودی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا: ”مودی۔شاہ حکومت کی عوام مخالف اور مزدور مخالف پالیسیو ں نے بھیانک بے روزگاری پیدا کردی ہے۔ مودی اپنے سرمایہ دار دوستوں کی مدد کرنے کے لیے پبلک سیکٹر کے اداروں کو مسلسل کمزور کر رہے ہیں۔ اس کے خلاف آج 25 کروڑ لوگوں نے 'بھارت بند 2020‘ ہڑتال کی ہے۔ میں ان سب کو سلام کرتا ہوں۔"
ہڑتال کی اپیل کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ مزدوروں اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے مودی حکومت سے ایک عرصے سے اپیل کر رہی ہیں لیکن حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، جس کی وجہ سے انہیں ملک گیر ہڑتال کا قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔
کنفیڈریشن آف انڈین ٹریڈ یونینز کے رہنما انوراگ سکسینا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”ہمارا بنیادی مطالبہ ہے کہ مہنگائی کے مطابق نان اسکلڈ مزدروں کی تنخواہ 21 ہزار روپے ماہانہ ہونی چاہیے اور ریٹائر ہونے والے مزدوروں کو کم از کم دس ہزار روپے پنشن ملنی چاہیے۔ مستقل کاموں کے لیے کنٹریکٹ سسٹم بند ہونا چاہیے، جس کا ذکر پہلے سے ہی کنٹریکٹ لیبر قانون میں موجود ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا، ”لیبر قوانین میں تبدیلی کر کے مزدوروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ ہم اس کے خلاف ہیں۔ یہی نہیں آنگن واڑی، آشا اور مڈڈے میل جیسے پروگراموں میں کام کرنے والوں سے کام تو پورا لیا جاتا ہے لیکن مرکزی حکومت انہیں ملازم کا درجہ نہیں دیتی۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ملازمین کا درجہ ملے۔"
کنفیڈریشن آف انڈین ٹریڈ یونینز کے ایک اوررہنما دیباش چوبے کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس ہڑتال میں عام لوگ شامل ہیں۔ کیوں کہ صرف مزدور ہی نہیں کسان بھی مودی حکومت سے ناراض ہیں: ”آپ دیکھیے ملک میں کسانوں کی خودکشی کتنی بڑھ گئی ہے۔کھاد سے لے کر ڈیزل تک کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ ایسے میں غریب کسان کس طرح اپنی فصل کی لاگت نکال پائے گا؟ حکومت کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت بھی نہیں دے رہی ہے۔ مرکزی حکومت منافع والی سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، ہر سیکٹر میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ہم ملک کے نوجوانوں، کسانوں، مزدوروں کی بات حکومت تک پہنچانے کے لیے جمہوری طریقے سے ہڑتال کررہے ہیں۔"
دوسری طرف حکومت نے ہڑتال پر جانے والے سرکاری ملازمین کو دھمکی بھرا نوٹس جاری: ”آئین میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جو ملازمین کو ہڑتال پر جانے کا حق دیتی ہو۔کوئی بھی ملازم اگر ہڑتال میں شامل پایا گیا تو اسے نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے خلاف تنخواہ کاٹ لینے سے لے کر ضابطہ کی کارروائی تک کی جاسکتی ہے۔"
سابق مرکزی وزیر شرد یادو نے ہڑتال کی تائید کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، ”یہ وقت کی ضرورت ہے کیوں کہ حکومت آئین مخالف، دلت مخالف، پسماندہ طبقات مخالف، غریب مخالف اور اقلیت مخالف ہے اور عوام مخالف اقدامات میں مصروف ہے۔"
آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسوسی ایشن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہڑتال کی وجہ سے 22 ہزار سے 25 ہزار کروڑ روپے کے قریب نقدی اور چیکوں سے لین دین متاثر ہوا ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے کئی شہریوں میں اے ٹی ایم سے پیسے نہیں نکل رہے ہیں۔