1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جے این یو میں نقاب پوشوں کا حملہ، متعدد اساتذہ اور طلبہ زخمی

6 جنوری 2020

بھارتی دارالحکومت دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نقاب پوشوں کی طرف سے منصوبہ بندی کے ساتھ سے کیے گئے ایک حملے بعد ہر جانب سے اس تشدد کی مذمت کی جا رہی ہے جبکہ ملکی سطح پر طلبہ کے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3VkkI
Indien - Neu Delhi - Angriffe auf Studenten
تصویر: DW/R. Chakraborty

مقامی میڈیا کے مطابق اتوار اور پیر کی درمیانی شب لاٹھیوں، ڈنڈوں اور راڈز سے لیس درجنوں نقاب پوش نوجوان یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئے اور  انہوں نے طلبہ اور اساتذہ کو بری طری سے مارا پیٹا۔ اس تشدد میں طلبہ یونین کی صدر اویشی گھوش سمیت کم از کم 34 افراد شدید زخمی ہوئے ہیں، جن کا دلی کے کئي ہسپتالوں میں علاج  جاری ہے۔

محترمہ گھوش کے سر پر شدید چوٹیں آئی ہیں جبکہ کئی سینیئر پروفیسرز بھی زخمی ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں نے گرلز ہاسٹل میں گھس کر طالبات کو زد و کوب کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔ پولیس نے اس سلسلے میں مقدمہ درج کر لیا ہے تاہم ابھی تک کسی کی بھی گرفتاری عمل میں  نہیں ہوئي ہے۔

وجہ کیا تھی؟

طلبہ کا الزام ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق دائیں بازو کی سخت گیر طلبہ تنظیم 'اکھل بھارتیہ وشو ہند پریشد (اے بی وی پی) سے ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس کی موجودگی میں یہ سب ہوتا رہا اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔ یونیورسٹی کے ایک طالب علم بالا جی کا، جو یونین کے سابق صدر ہیں، کہنا تھا کہ طلبہ فیس میں اضافے کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے احتجاج کر رہے تھے اور حکمراں جماعت بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی کو یہ پسند نہیں تھا  اور اسی لیے دونوں میں کشیدگی تھی اور بات یہاں تک پہنچي۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی  بات چيت میں بالا جی نے بتایا، "اتوار کو دوپہر کے بعد اے بی وی پی اور احتجاج کرنے والے طلبہ میں تصادم ہوا تھا۔ شام کو یونین کی صدر اور بہت سے طلبہ اور اساتذہ نےاس پر تشدد رویے کے خلاف ایک پر امن مارچ شروع کیا اور تبھی اے بی وی پی نے باہر کے نقاب پوش غنڈوں کی مدد سے ان پر حملہ کیا۔" بالا جی کے مطابق اس حملے کا ایک منصوبہ تیار کیاگيا تھا جس میں دہلی یونیورسٹی کے اے بی وی پی کے طلبہ بھی شامل تھے۔

ایک گرفتاری نہ ہو سکی

حکومت نے اس حملے کی تفتیش کا حکم دیا ہے اور دہلی کے گورنر سے طلبہ سے بات چیت شروع کرنے کو کہا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بعض حملہ آوروں کی شناخت ہوئی ہے لیکن حیرت کی بات یہ کہ ابھی تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گيا ہے۔

اس دوران جے این یو کی ٹیچرز ایسو سی ایشن نے ملک کے صدر کو خط لکھ کر وائس چانسلر ایم جگادیش کمار کی فوری برطرفی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس خط میں لکھا گيا ہے کہ 'یونیورسٹی انتظامیہ اس تشدد کی پوری طرح سے ذمے دار ہے اور اس کے ملوث ہوئے بغیر ایسے غنڈوں کا کیمپس میں داخلہ اور پھر کارروائی کے بعد اتنی آسانی سے نکل جانا ممکن ہی نہیں ہے‘۔

’حملے میں یونیورسٹی کی انتظامیہ ملوث تھی‘

کانگریس پارٹی کے ایک ترجمان رنڑدیٹ سنگھ سرجے والا نے طلبہ اور اساتذہ کے ان الزامات کو پوری طرح سے درست قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں لکھا، "یہ منصوبہ بند حملہ تھا جس میں جے این یو کی انتظامیہ پوری طرح ملوث ہے۔ غنڈوں کا تعلق بے جی پی سے ہے، جب طلبہ اور اساتذہ کی پٹائی ہورہی تھی تو دہلی پولیس خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔"

طلبہ کے مظاہرے شروع

رات کو جے این کی خبریں جیسے ہی ٹی وی پر نشر ہونا شروع ہوئیں، جس میں کئی طلبہ کے سروں سے خون بہہ رہا تھا، تو کئی شہروں میں یونیورسٹیوں کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔

دہلی میں دیر رات تک پولیس ہیڈ کوارٹرز کے باہر مظاہرہ ہوا۔ ممبئی میں لوگ گیٹ وے آف انڈیا کے پاس جمع ہوئے اور رات بھر دھرنے دیے رہے۔ اب تک کی خبروں کے مطابق، دہلی، کولکتہ ، بنگلورو، ممبئی، حیدرآباد، لکھنؤ اور  بنارس جیسے بیشتر شہروں اور ریاست کیرلا اور مغربی بنگال کے بیشتر علاقوں میں اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔          

 جے این یو میں طلبہ اور اساتذہ پر ہونے والے اس تشدد کی ہر جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔ یونیورسٹی کے دو سابق طلبہ، وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے کیمپس میں اس تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے تھا کہ جے این یو علمی بحث و مباحثے کے لیے جانا جاتا ہے جہاں اس طرح کے تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونا چاہیے۔     

اپوزیشن کا ردعمل

 کانگریس پارٹی کی رہنما پریانکا کا گاندھی نے اس واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے  زخمی طلبہ و اساتذہ سے ہسپتال میں ملاقات کی ہے۔ پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی نے اپنے ایک ٹوئٹ پیغام میں لکھا، "جے این یو کے طلبہ اور اساتذہ پر نقاب پوش غنڈوں کا ظالمانہ حملہ ایک بڑا دھچکا ہے۔ ملک پر فسطائیوں کا کنٹرول ہے، جو بہادر طلبہ کی آوازوں سے خوفزدہ ہیں۔ جے این یو میں آج کا تشدد خوف کا عکاس ہے۔"

 دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجری وال نے راہول گاندھی کی ٹوئٹ کے جواب میں لکھا کہ اگر راہول کو اتنی ہی تشویش ہے تو انھیں اپنی پارٹی کارکنان کے ساتھ جے این کا دورہ کرنا چاہیے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے بھی اپنی ایک ٹوئٹ میں راہول گاندھی سے طلبہ کا ساتھ دینے کے لیے سڑکوں پر نکلنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں