1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: متنازعہ سی اے اے کے بعد اب این پی آر

جاوید اختر، نئی دہلی
24 دسمبر 2019

بھارت میں شہریت ترمیمی قانون(سی اے اے) اور شہریوں کا قومی رجسٹر (این آر سی) کے خلاف جاری ملک گیر مظاہروں کے درمیان نریندر مودی حکومت نےآج  قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کو اپ ڈیٹ کرنے کی منظوری دے دی۔

https://p.dw.com/p/3VIRt
Indien Neu Delhi Proteste gegen Staatsbürgerschaftsrecht
تصویر: AFP/P. Singh

مودی حکومت نے این پی آر کو منظوری دیتے ہوئے اس پر عمل درآمد کے لیے3941 کروڑ روپے کے بجٹ کا بھی اعلان کیا۔ مغربی بنگال، پنجاب اور کیرالا کی حکومتیں پہلے ہی این پی آر کی مخالفت کر رہی ہیں۔

این پی آر کیا ہے؟

نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کے تحت بھارت کے ہر شہری کو اپنا نام اس رجسٹر میں درج کرانا لازمی ہو گا۔ این پی آر کے تحت یکم اپریل 2020ء سے 30 ستمبر 2020ء تک شہریوں کا ڈیٹا بیس تیار کرنے کے لیے ملک بھر میں گھر گھر جا کر مردم شماری کی جائے گی۔ اس میں فرد کا نام، پتہ، تعلیم، پیشہ جیسی معلومات درج ہوں گی۔ این پی آر میں درج معلومات لوگوں کے خود فراہم کردہ اطلاعات پر مبنی ہوگی اور یہ شہریت کا ثبوت نہیں ہو گا۔

Indien Kolkata Proteste gegen neues Staatsbürgerschaftsrecht  Amit Shah
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Das

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ این پی آر کا کام قومی مردم شماری قانون کے تحت ہورہا ہے۔ یہ ملک کے تمام عام شہریوں کا دستاویز ہے، جسے شہریت قانون 1955ء کے تحت مقامی، بلدیاتی، ضلعی، ریاستی اور قومی سطح پر تیار کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو پچھلے چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت سے کسی جگہ قیام پذیر ہے تو اسے این پی آر میں رجسٹرکرانا ضروری ہوگا۔ کوئی غیر ملکی بھی اگر بھارت کے کسی حصے میں چھ ماہ سے مقیم ہو تو اسے بھی این پی آر میں اپنی تفصیلات درج کرانی ہوگی۔

این پی آر اوراین آر سی میں فرق

Indien Kolkata Proteste gegen Staatsbürgerschaftsrecht
تصویر: picture-alliance/Xinhua/T. Mondal

نیشنل پاپولیشن رجسٹر اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس میں فرق ہے۔ این آر سی میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی شناخت کی بات کی گئی ہے۔ اس میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی شناخت کر کے انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ این پی آر کا کام آسام کو چھوڑ کر ملک کے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ہوگا۔ آسام میں این آر سی نافذ ہوچکا ہے۔

این پی آر کی مخالفت

مغربی بنگال اور کیرالا کی حکومتوں نے این پی آر کو اپ ڈیٹ کرنے کی مخالفت کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کہا کہ انہوں نے یہ فیصلہ مفاد عامہ میں کیا ہے۔ جب کہ کیرالا کے وزیر اعلی کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے این پی آر کو ملتوی کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیوں کہ اس سے این آر سی نافذ کرنے کا خدشہ ہے اور این پی آر کا معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا بھی ہے۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے مدنظرحکومت نے کہا کہ این پی آر کے لیے کسی بھی طرح کا دستاویز دینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ وفاقی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے میڈیا کو کابینہ کے آج کی فیصلوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ”اس میں کوئی بھی ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ کاغذ دینا ہے، نہ بائیو میٹرک ہوگا۔ آپ جو کہو گے وہی صحیح ہے کیوں کہ ہمیں عوام پر اعتماد ہے، جو بھی بھارت میں رہتا ہے اس کو اس میں شامل کیا جائے گا۔"

پرکاش جاوڈیکر نے این پی آر کے فائدے بھی بتاتے ہوئے کہا”اس سے کئی فائدے ہیں۔ حکومت کی تمام اسکیموں کے لیے حقیقی ضرورت مند کی شناخت کرنے میں آسانی ہوگی اور ان تک مناسب اور براہ راست پیسہ پہنچے گا۔"

Indien Amit Shah Proteste gegen neues Staatsbürgerschaftsrecht Kommunisten
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Das

کانگریس نے این پی آر شروع کی تھی

این پی آر کے لیے اعدادو شمار یکجا کرنے کا کام پہلی مرتبہ کانگریس کی قیادت والی متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کے دور حکومت میں سن 2010 میں شروع ہوا تھا۔ سن 2015 میں اسے اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ این پی آر کا این آرسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ این پی آرکو کانگریس کی قیادت والی حکومت نے شروع کیا تھا،''یہ اچھا کام ہے، جسے ہم جاری رکھ رہے ہیں‘‘۔

مودی حکومت نے اسی کے ساتھ2021ء میں اگلی مردم شماری کرانے کا بھی اعلان کیا۔ آخری مردم شماری سال2011 میں ہوئی تھی۔ حکومت نے مردم شماری کے مد میں 8754 کروڑ روپے کے بجٹ کا اعلان کیا ہے۔

’مودی حکومت خاموش کرائے گی تو دیواریں بھی بولیں گی‘