1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعات

بھارت روسی تیل کی ادائیگی یوان میں کرنے سے نالاں کیوں ہے؟

17 اکتوبر 2023

بھارتی حکومت روس سے حاصل ہونے والے تیل کی ادائیگی چینی کرنسی یوان میں کرنے سے انکاری ہے، جس کی وجہ سے کچھ ادائیگیاں رک گئی ہیں۔ تاہم ادائیگیوں پر اس جھگڑے سے اب تک ترسیل میں کوئی خلل نہیں پڑا ہے۔

https://p.dw.com/p/4XcPE
تیل فراہم کرنے والی ایک روسی کمپنی
ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا بھارتی حکومت نے ریاستی ریفائنریز کو یوان میں ادائیگی روک دینے کی ہدایت کی ہے یا نہیں، تاہم نئی دہلی کی ناپسندیدگی بالکل واضح ہےتصویر: Total Vostok/TASS/dpa/picture alliance

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اس معاملے سے واقف افراد کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ریاست کے زیر کنٹرول ریفائنریوں کی جانب سے چینی کرنسی یوان میں روسی تیل کی درآمدات کی ادائیگی کی اجازت دینے کے حوالے سے بھارتی حکومت کافی بے چین ہے۔ اسی لیے کم از کم سات کارگوز کی ادائیگی روک دی گئی ہے۔

روسی بھارتی تجارت اور روپے کا مسئلہ

تاہم اس تنازعے کی وجہ سے اب تک روسی تیل کی ترسیل میں کوئی خلل نہیں پڑا ہے۔ روزنیفٹ جیسی روسی کمپنیوں نے ریاست کے زیر کنٹرول بھارتی ریفائنریز کو فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے اور تصفیہ کے متبادل طریقوں کو تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

بھارت روسی تیل کا پیاسا کیوں؟

رواں برس بھارت روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے۔ یوکرین پر حملے کے بعد ماسکو پر مغربی پابندیوں کے بعد روسی کمپنیوں نے رعایتی داموں پر تیل فروخت کرنا شروع کیا، جس کا سب سے زیادہ بھارتی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔

بھارت کے لیے روسی تیل، باہمی فائدے کی شراکت داری

لیکن جب سے امریکہ اور یوروپی یونین نے روسی تیل پر 60 ڈالر فی بیرل کی قیمت کی حد عائد کر دی، تب سے ریفائنریز کو ماسکو کے ساتھ تیل کی تجارت طے کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے خریداروں کو درہم یا اس طرح کی متبادل کرنسی استعمال کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

سستے روسی تیل کی ادائیگی چینی کرنسی میں کی گئی، پاکستان

روئٹرز نے جولائی میں رپورٹ کیا تھا کہ بھارتی ریفائنریز نے روسی فروخت کنندگان سے تیل کی کچھ ادائیگی کے لیے یوان کا استعمال شروع کر دیا ہے، جبکہ ایسی بیشتر خریداریوں کو طے کرنے کے لیے ڈالر اور درہم کا استعمال بھی جاری رکھا ہوا ہے۔

توانائی کا بحران: پاکستان کی نظریں روس اور امریکہ دونوں پر

تاہم وزارت خزانہ کے دو اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ بھارتی حکومت اس کے لیے یوان کے استعمال سے کافی بے چین ہے اور متاثرہ ریفائنریز کے اہلکاروں سے بات چیت کی بنیاد پر کم از کم سات کارگو کی ادائیگی روک دی گئی ہے۔ دو ریاستی ریفائنریز کو فراہم کیے گئے حالیہ کارگوز کے لیے کچھ ادائیگیاں ستمبر کے آخری ہفتے سے زیر التواء ہیں۔

تیل فراہم کرنے والا ایک روسی پلانٹ
ریفائننگ ذرائع نے بتایا کہ بیشتر تاجر درہم میں سودے کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن روسی فروخت کنندگان یوان کی مانگ کر رہے ہیںتصویر: Veniamin Kondratyev/Telegram/AP Photo/picture alliance

ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا بھارتی حکومت نے ریاستی ریفائنریز کو یوان میں ادائیگی روک دینے کی ہدایت کی ہے یا نہیں، تاہم نئی دہلی کی ناپسندیدگی بالکل واضح ہے۔

وزارت کے ایک اہلکار نے کہا، ''اس پر پابندی تو نہیں ہے اور اگر کسی نجی فرم کے پاس اپنی تجارت طے کرنے کے لیے یوان ہوں، تو حکومت اسے نہیں روکے گی، لیکن وہ اس طرح کی تجارت کی نہ تو حوصلہ افزائی کرے گی اور نہ ہی سہولت فراہم کرے گی۔''

بھارتی ریفائنریز اپنا زیادہ تر روسی تیل تاجروں سے خریدتے ہیں، جبکہ کچھ تیل براہ راست روسی اداروں سے بھی خریدا جاتا ہے۔

ریفائننگ ذرائع نے بتایا کہ بیشتر تاجر درہم میں سودے کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن روسی فروخت کنندگان یوان کی مانگ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے جب روس کی روزنیف، گیزپورم اور گیزپورم نیفٹ جیسی کمپنیوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

روئٹرز نے پہلے اطلاع دی تھی کہ سرکاری طور پر چلنے والی انڈین آئل کارپوریشن، جو بھارت کی سب سے بڑی ریفائنر ی ہے، نے روسی تیل کی ادائیگی کے لیے یوان اور دیگر کرنسیوں کا استعمال کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت پیٹرولیم کارپوریشن  یا اس جیسے دوسرے ریاستی ریفائنریز، جنہوں نے یوان میں اب تک تیل کی ادائیگی نہیں کی ہے، ان سے بھی اب روسی سپلائرز نے چینی کرنسی استعمال کرنے کو کہا ہے۔

لیکن بھارت کی نجی کمپنیوں نے روسی تیل کی درآمدات کے لیے یوان اور دیگر کرنسیوں میں ادائیگی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روسی تیل کی زیادہ تر بھارتی خریداری درہم میں ادا کی جاتی ہے۔

دو بھارتی ریفائننگ ذرائع نے بتایا کہ یوآن میں ادائیگی سے ان کی لاگت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ روپے کو پہلے ہانگ کانگ کے ڈالر اور پھر یوآن میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمل درہم میں ادائیگی کرنے سے 2-3 فیصد زیادہ ہے۔

روپے سے یوآن کی تبدیلی ایک اضافی بوجھ کا اضافہ کرتی ہے۔ تاہم اس تنازعے کے حوالے سے انڈین آئل، بی پی سی ایل اور ایچ پی سی

 ایل جیسی بھارتی کمپنیوں اور ملک کی تیل اور مالیاتی وزارتوں سے جب روئٹرز نے سوال کیا تو انہوں نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

بھارت کے مرکزی بینک نے گزشتہ برس غیر ملکی تجارت کو روپے میں طے کرنے کے ایک طریقہ کار کا اعلان کیا تھا اس لیے ملک کے ریاستی ریفائنریز روسی تیل کی ادائیگی کے لیے روپے کے استعمال کو ترجیح دیں گے۔ لیکن روس روپے کو قبول کرنے میں کم دلچسپی رکھتا ہے کیونکہ دو طرفہ تجارتی توازن ماسکو کے حق میں ہے۔

بھارت میں کچھ لوگ یوان کے استعمال کو چین کے فائدے کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔ سن 2020 میں سرحدی جھڑپ کے بعد سے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں، جس میں 20 بھارتی فوجی اور چار چینی فوجی مارے گئے تھے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز)

یورپ کی طرف سے روسی تیل پر پابندیاں اور ان سے بچنے کے لیے روس کا حل