1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'تاج محل مغلوں کی تعمیر نہیں'، تاریخ درست کرانے کا مقدمہ

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
3 نومبر 2023

بھارت کی ایک سخت گیر ہندو تنظیم نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کر کے دعویٰ کیا ہے کہ تاج محل اصل میں راجہ مان سنگھ کا محل تھا بعد میں شاہ جہاں نے، اس کی صرف مرمت کروائی تھی۔

https://p.dw.com/p/4YLvZ
تاج محل
ہندو سینا نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عدالت مرکزی حکومت، محکمہ آثار قدیمہ اور ریاست اتر پردیش کی حکومت کو حکم دے کہ وہ تاج محل کی تعمیر سے متعلق غلط تاریخی حقائق کو تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیں اور اس کی جگہ صحیح حقائق پر مبنی نئی تاریخی کتابیں شائع کی جائیںتصویر: Douglas E. Curran/AFP/dpa/picture alliance

دہلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست دائر کر کے یہ استدعا کی گئی ہے کہ عدالت بھارتی حکومت کو ہدایت کرے کہ وہ تاج محل سے متعلق تاریخی حقائق کو درست کر کے دوبارہ تاریخی کتابیں شائع کرے۔ عدالت نے اس درخواست کو رد یا پھر سماعت کے لیے منظور کرنے کا فی الحال فیصلہ نہیں کیا ہے۔

بھارت: ہندو قوم پرستی کی بھینٹ چڑھتا قدیم تہذیبی و ثقافتی ورثہ

مفاد عامہ کی یہ عرضی ایک سخت گیر ہندو تنظیم 'ہندو سینا' کے صدر سرجیت سنگھ یادو کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تاج محل اصل میں راجہ مان سنگھ کا محل تھا، جس کی بعد میں مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے محض مرمت کراوائی تھی اوریہ مغلوں کی تعمیر نہیں ہے۔

تاج محل: بائیس 'مقفل کمروں' کا راز کیا ہے؟

ہندو سینا نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عدالت مرکزی حکومت، محکمہ آثار قدیمہ اور ریاست اتر پردیش کی حکومت کو حکم دے کہ وہ تاج محل کی تعمیر سے متعلق غلط تاریخی حقائق کو تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیں اور اس کی جگہ صحیح حقائق پر مبنی نئی تاریخی کتابیں شائع کی جائیں۔

'پہلے تاج محل کی تاریخ پڑھ کر آؤ‘، بھارتی عدالت کی عرضی گزار کی سرزنش

واضح رہے کہ دنیا کے سات عجائبات میں شامل مغلیہ دور کی شاندار عمارت تاج محل آگرہ میں واقع ہے، جو ریاست یو پی کا ایک اہم شہر ہے۔

ہندو راشٹر کے قیام کے لیے تاج محل کے اندر دھرم سنسد کرنے کا اعلان

عرضی گزرا نے  عدالت سے یہ بھی استدعا کی ہے کہ وہ بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کو حکم دے کہ وہ تاج محل کے دور اور راجہ مان سنگھ کے محل کے وجود کے بارے میں تفتیش کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔

محبت کی نشانی تاج محل میں ہر طرف ویرانی ہی ویرانی

بھارتی میڈیا کے مطابق زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس درخواست پر جمعے کے روز ہی سماعت ہو سکتی ہے، جو ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس تشار راؤ گیڈیلا کی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے پیش کی جائے گی۔

تاج محل
عرضی گزار کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاج محل پر کئی کتابوں کا جائزہ لیا اور ایک کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی ایک اہلیہ عالیہ بیگم تھیں اور ممتاز محل کا کوئی ذکر نہیں ہےتصویر: Pawan Sharma/AFP/Getty Images

عرضی گزار کے دلائل کیا ہیں؟

مفاد کی اس عرضداشت سرجیت یادو نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے تاج محل کے بارے میں کافی گہرا مطالعہ اور تحقیق کی ہے، بقول ان کے ''تاریخ کے حقائق کو درست کرنا اور لوگوں کو تاج محل کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔''

ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تاج محل پر کئی کتابوں کا جائزہ لیا اور ایک کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ جہاں کی ایک اہلیہ عالیہ بیگم تھیں اور ممتاز محل کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

انہوں نے اس حوالے سے ایک قدرے گم نام مصنف زیڈ اے ڈیسائی کی کتاب 'تاج میوزیم' کا حوالہ دیا، جس کے مطابق ممتاز محل کی تدفین کے لیے ایک ''بلند اور خوبصورت'' جگہ کا انتخاب کیا گیا تھا، جو کہ راجہ مان سنگھ کی حویلی تھی اور تدفین کے وقت مان سنگھ کے پوتے راجہ جئے سنگھ کے قبضے میں تھی۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ یہ حویلی کبھی گرائی نہیں گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ تاج محل کا موجودہ ڈھانچہ ''ترمیم شدہ راجہ مان سنگھ کی حویلی کی تزئین و آرائش اور تجدید کاری کے سوا کچھ نہیں ہے جو پہلے سے ہی موجود تھی۔''

تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش

محبت کی لافانی یادگار اور دنیا کے عجائبات میں شامل تاج محل کے حوالے سے تنازعات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس عمارت کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سترہویں صدی میں آگرہ میں تعمیر کروایا تھا۔

لیکن دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتیں اور ایسی سخت گیر تنظیمیں مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر کئی اہم تاریخی عمارتوں کی طرح تاج محل کو بھی ایک ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ دہلی کا لال قلعہ، جامع مسجد اور اس طرح کی دیگر تاریخی عمارتیں مغلوں کی تعمیر کردہ نہیں بلکہ ہندو راجاؤں کی دین ہیں۔

 ایسی بیشتر عمارتوں کو یہ سخت گیر ہندو اپنا قدیم مندر بتاتے ہیں اور اس کے لیے ایک مہم بھی چلا رکھی ہے۔

ہندوتو کے علمبردار اور خود کو مورخ قرار دینے والے مراٹھی برہمن پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نے سن 1965 میں ''تاج محل تیجو مہالیہ ہے'' کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس تنازعے کو ہوا دی تھی۔ اوک مسلمانوں کے مقدس ترین مقام کعبہ اور مسیحیوں کے مذہبی مقام ویٹیکن سٹی کو بھی ہندو مندر قرار دے چکے ہیں۔

انہوں نے تاج محل کو شیو مندر ثابت کرانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تھا، تاہم سپریم کورٹ نے سن 2000 میں ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

لیکن اوک کے نظریے کی بنیاد پر تاج محل کے حوالے سے مختلف عدالتو ں میں کیس دائر کرنے کا سلسلہ چلتا رہا ہے اور تازہ ترین معاملہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حالانکہ اگست 2017 ء میں بھارتی آثار قدیمہ نے اپنے ایک واضح بیان میں کہا تھا کہ تاج محل میں کسی مندر کے آثار اور اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔

بھارت: تاج محل خطرے میں