1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاج محل: بائیس 'مقفل کمروں' کا راز کیا ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
16 مئی 2022

تاج محل کے مقفل 22 کمروں کو کھلوانے کی عرضی الہ آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے مسترد کرتے ہوئے عرضی گزار کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔ تاہم ان مقفل کمروں کے حوالے سے افواہیں گردش کرتی ہیں- تاریخ داں اس حوالے سے کیا کہتے ہیں:

https://p.dw.com/p/4BLwh
TABLEAU | Indien Eröffnung des Taj Mahal
تصویر: MONEY SHARMA/AFP via Getty Images

محبت کی لافانی یادگار اور دنیا کے عجائبات میں شامل تاج محل کے حوالے سے تنازعات کوئی نئی بات نہیں، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنی بیگم ممتاز محل کی یاد میں سترہویں صدی میں آگرہ میں تعمیر کرایا۔ دائیں بازو کی ہندو قوم پرست جماعتیں مغلوں کی تعمیر کردہ دیگر کئی اہم تاریخی عمارتوں کی طرح تاج محل کو بھی ہندو مندر ہونے کے دعوے کرتی رہی ہیں۔

ہندوتو کے علمبردار اور خود کو مورخ قرار دینے والے مراٹھی برہمن پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نے سن 1965 میں ''تاج محل تیجو مہالیہ ہے‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ کر اس تنازعے کو ہوا دی۔ اوک کعبہ اور ویٹیکن سٹی کو بھی ہندو مندر قرار دے چکے ہیں۔ انہوں نے تاج محل کو شیو مندر ثابت کرانے کے لیے عدالت سے بھی رجوع کیا تاہم سپریم کورٹ نے سن 2000 میں ان کی درخواست مسترد کر دی۔

لیکن اوک کی تھیوری کی بنیاد پر تاج محل کے حوالے سے مختلف عدالتو ں میں کیس دائر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ حالانکہ اگست 2017 ء میں بھارتی آثار قدیمہ نے واضح بیان میں کہا تھا کہ تاج محل میں کسی مندر کے آثار اور اس کا کوئی بھی ثبوت نہیں ہے۔

بی جے پی رہنما سنگیت سوم نے سن 2017 میں تاج محل کو بھارتی ثقافت پر ایک 'دھبہ' قرار دیا کیونکہ ان کے بقول اسے"غداروں نے بنایا تھا۔" گزشتہ ہفتے ہی بی جے پی کی ایک ہندو رکن پارلیمان نے دعوی کیا کہ شاہ جہاں نے ان کے شاہی خاندان کی ملکیت والی زمین پر قبضہ کر کے یہ یادگار تعمیر کرائی لہذا اس پر ان کا حق ہے۔

تاج محل کے 22 کمروں میں کیا ہے؟

ان دعوؤں کے درمیان قوم پرست ہندوؤں کا ایک طبقہ بڑے زور شور سے یہ افواہیں بھی پھیلاتا رہا ہے کہ تاج محل کے 22 کمروں کو اس لیے مقفل رکھا گیا ہے کیونکہ ان میں مبینہ طور پر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے آثار اور علامات محفوظ ہیں۔ حالانکہ تاج محل کی دیکھ بھال پر معمور آثار قدیمہ کے اہلکار اس کی مسلسل تردید کرتے رہے ہیں۔

'ورلڈ مونومینٹس فنڈ انڈیا ایسوسی ایشن' کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور کنزرویٹر امیتا بیگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس طرح کے دعوؤں کی واضح طور پر تردید کی۔

امیتا بیگ نے بتایا کہ انہوں نے تقریباً بیس برس قبل اس جگہ کو دیکھا تھا، ''یہ کوئی کمرے نہیں بلکہ راہداری ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں اکثر دریائے جمنا پر کشتی کے ذریعہ تاج محل پہنچتے تھے اور سیڑھیوں یا گھاٹوں کے ایک وسیع سلسلے سے گزرتے ہوئے مقبرے میں داخل ہوتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ 'کمرے' ٹھنڈے رہتے تھے، اس لیے شاہ جہاں گرمی کے دنوں میں اکثر اس جگہ کچھ دیر قیام بھی کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا، ''میں نے دیکھا ہے کہ اس جگہ کو بڑی خوبصورتی سے پینٹ کیا گیا ہے۔ یہ یقیناً ایک شہنشاہ کی گزر گاہ تھی۔‘‘

Indien Eröffnung des Taj Mahal
تصویر: MONEY SHARMA/AFP via Getty Images

سیلاب کی وجہ سے بند کیا گیا

امیتا بیگ بتاتی ہیں کہ سن 1978 سے قبل تک یہ 'کمرے‘  سیاحوں کے لیے کھلے تھے۔ لیکن جمنا میں سیلاب آنے کی وجہ سے پانی عمارت میں بھی داخل ہو گیا تھا، جس کے بعد اس میں کچھ دراڑیں پڑ گئیں اور حکام نے عوام کے لیے انہیں بند کر دیا۔

محکمہ آثار قدیمہ کے ایک عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ ان 'کمروں‘ میں کچھ بھی نہیں ہے اور اب بھی انہیں صفائی وغیرہ کے لیے ہفتے پندرہ دنوں میں کھولا جاتا ہے لیکن سکیورٹی اسباب کی بنا پر عام سیاحوں کو ان میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔

TABLEAU | Indien Eröffnung des Taj Mahal
تصویر: MONEY SHARMA/AFP via Getty Images

کوئی مذہبی علامت نہیں

معروف بھارتی ماہر آثار قدیمہ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے سابق ریجنل ڈائریکٹر کے کے محمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد بار ان کمروں کو دیکھا ہے، ان میں کوئی مذہبی علامت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کمرے مغل دور کی دیگر تعمیرات میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دہلی میں ہمایوں کے مقبرے اور صفدر جنگ مقبرے میں بھی اس طرح کے کمرے موجود ہیں۔ لاہور میں بھی مغلیہ دور کے ایک قلعے میں اس طرح کے کمرے موجود ہیں۔

مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں ہندو قوم پرستی اور ہندو شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے وہیں مسلمانوں اور بالخصوص مغل دور حکومت سے وابستہ یادگاروں کو ہندو یادگار ثابت کرنے کی مہم بھی تیز ہو گئی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کو مسخ کرکے سیاسی فائدے کے لیے جعلی خبروں، جھوٹی تاریخ اور ہندوؤں کے ساتھ زیادتی اور ان کی مظلومی کے احساس کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھارت کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید