1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بچپن کی کہانیاں، خیالی پیکر اور ناکام عملی زندگی

15 اگست 2020

ہمیں کہانیوں اور فلموں کی طرح سوشل میڈیا پر ’خوشگوار ازدواجی زندگی‘ پوسٹر لگا کر دنیا کو باور کرانا ہوتا کہ ’آل اِز ویل‘ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو دنیا آپ کو ناکام سمجھے گی۔ منہا حیدر کا بلاگ

https://p.dw.com/p/3h0cx
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

آج کہیں سے نہایت بوسیدہ اور خستہ  سی پاکٹ سائز کہانی ملی جو نادانی کے اس دور میں کھینچ کر لے گئی جب دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ایک خیالی جادوگر لگتا تھا۔ عمر کے اس دور میں پڑھی جانے والی کہانیاں جہاں ایک بچے کی پڑھنے کی مہارت کو بہتر بناتی ہیں اور بچوں میں ذخیرہ الفاظ کا استعمال، جملوں کی بہتر ادائیگی میں مدد کرتی ہیں تو وہیں یہ ان کی  نفسیات اور کردار پہ بھی گہرا تاثر چھوڑتی ہیں جس کے نتیجے میں کچا ذہن اپنے پسندیدہ کرداروں کے اوصاف اپنے گرد وپیش میں ڈھونڈنا شروع کردیتا ہے اور اگر کوئی نہ ملے تو اپنے ذہن میں خیالی پیکر بنا بھی لیتا ہے۔ اسی وجہ سے مغربی معاشرے میں 'امیجنری فرینڈ‘ (خیالی دوست) کی اصطلاح نہایت عام ہے۔ اب جیسے جیسے وقت گزرتا ہے یہ خیالی پیکر قد آور شخصیت کی صورت ہمارے لاشعور پہ قابض ہوجاتے ہیں اور پھر آئیڈیل کی تلاش والا ناممکن سا مسئلہ زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

2011ء میں نیورو سائیکلوجیکل سینٹر چیسٹر کی ڈائریکٹر 'سیلی گوڈارڈ بلیتھ ‘ نے ٹیلی گراف کے ایک آرٹیکل میں اسی موضوع پر کہا، ''بچپن میں پڑھی جانے والی کہانیاں بچوں میں تصوراتی اور تخلیقی قوت پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، بچے تصورات میں کسی بھی مشکل صورت حال کی تصویر کشی کر کے اپنے خیالوں میں ہی اس سے نبردآزما ہونے کے ہزاروں طریقے نکال لیتے ہیں اور ہر بچہ اپنی کہانی کا ہیرو ہمیشہ خود ہی بنتا ہے۔ جہاں یہ امر اس میں اعتماد پیدا کرتا ہے تو وہیں وہ عملی سستی کا بیج بھی بو دیتا ہے۔ ایسے بچے یا افراد حقیقت قبول کرنے سے خائف ہوتے ہیں کیونکہ خیالی اور حقیقی زندگی میں بہت فرق ہے، حقیقی زندگی کے چیلنجز کس نوعیت کے ہوں گے، وہ ہماری مرضی سے طے ہرگز نہیں ہوتا۔ کہانیاں بچوں کو بے عمل بنانے کی اہلیت بھی رکھتی ہیں۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:

اختلاف رائے اور خواتین صحافیوں کی کردار کُشی

مجھے علیحدہ کمرے میں کیوں سونا ہے؟

کہانیوں کے خاکوں پہ نظر دوڑائیں تو کیا اردو کیا انگریزی، دونوں زبانوں میں طلسم ہوشربا کی سلطنت میں ایسے نسوانی کردار ملتے ہیں، جن کی واحد قابلیت ان کی خوبصورتی ہوتی ہے اگر کسی شہزادی کا ذکر ہو تو دنیا بھر سے شہزادے سوئمبر میں اس کا ساتھ پانے کے متمنی ہوتے ہیں اور اگر کوئی غریب یا حالات کی ستائی ہوئی لڑکی ہو تو حالات بدلنے کے لیے بھی اس کو ایسے شہزادے کی تلاش ہوتی ہے جو در در اس کا جوتا لے کر اسے ڈھونڈتا پھرے۔ یہاں تک کہ قریب المرگ شہزادی بھی زندہ ہونے کے لیے اپنے شہزادے کے لمس کی محتاج ہوتی ہے۔ اس طرح کی کہانیاں دونوں اصناف میں آئیڈیل تشکیل دے دیتی ہیں۔ لڑکی اگر لمبی،نازک اور بلا کی حسین ہو تو ہی وہ کسی کے دل پہ راج کرسکے گی اور شہزادہ وہی ہوگا، جو مردانہ وجاہت کا حسین شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا اور دولت آپ پر تیاگ دینے کو تیار ہو۔کیا واقعی حقیقی دنیا اس قدر آسان ثابت ہوتی ہے؟

لڑکیاں مناسب رشتوں اور قبولیت کی آس میں چائے کی ٹرالیاں گھسیٹتے گھسیٹتے سر میں چاندی اتار لیتی ہیں۔ کہاں کہانیوں میں پڑھے گئے وہ سوئمبر کے مناظر اور کہاں اجنبیوں کی جانب سے اپنی قدوقامت، اور چہرے کے نقوش کی وجہ سے قبول نہ کیا جانا۔ مسیحائی کے تمام اوصاف کا مالک ہونا بھی کہاں حقیقی دنیا کے مردوں کے لیے ممکن ہے؟

کہانیوں کے اختتام پر 'پھر وہ ہنسی خوشی رہنے لگے‘ بھی ایک اسٹیریو ٹائپ ہے۔ چاہے زندگی کس قدر تلخ اور نشیب و فراز سے گزر رہی ہو، ہمیں کہانیوں اور فلموں کی طرح سوشل میڈیا پر 'خوشگوار ازدواجی زندگی‘ پوسٹر لگا کر دنیا کو باور کرانا ہوتا کہ 'آل اِز ویل‘ اور اگر ایسا نہیں ہوگا تو دنیا آپ کو ناکام سمجھے گی۔ گھر کی چار دیواری کے اندر چاہے وہ انسان آپ کی گردن طوطے کی طرح مروڑتا ہوا ایک ظالم جادوگر ہی کیوں نہ ہو آپ کو اپنی سیلفی کے ساتھ ایک رومانوی عنوان دے کر دنیا کو بتانا ہوگا کہ جی ہم ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں اور یوں ایک کھوکھلی زندگی ایک نقاب کے پیچھے چھپا کر گزارتے  رہتے ہیں۔

اب کہانیوں کے عنوان بدلنے چاہییں کہ کوئی اگر حالات کی چکی میں پس رہا ہے تو وہ اپنے عمل اور کوشش سے خود اپنے لیے آسانی پیدا کرے نہ کہ کسی مسیحا کا انتظار کرے، ورنہ یہ انتظار  زندگی کے ہر زاویے پہ نسلوں تک اثر انداز ہوگا اور ہم کبھی اپنی زندگیاں خود بدلنے کی اہلیت نہیں پیدا کرسکیں گے۔ ان کہانیوں کو حقیقت کے قریب لاکر ہی ہم معاشرے کے تاریک پہلوؤں کا ناصرف حل نکال سکتے ہیں بلکہ تصوراتی اور جذباتی طور پر بھی ان توقعات کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے جوبعد ازاں اس قسم کے نفسیاتی عوامل کو جنم دیتی ہیں۔