1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اختلاف رائے اور خواتین صحافیوں کی کردار کُشی

سعدیہ احمد
13 اگست 2020

یہ بلاگ لکھنا تو کل تھا لیکن آج وقت ملا۔ کچھ روزگار کے مسائل اور کچھ دنیا داری، وقت بھی عید کا چاند ہی ہو گیا ہے۔ جس دن ویڈیو بلاگ بنانا ہو، اس دن تو سمجھیے پورا دن ہی اس کی نذر ہوا۔

https://p.dw.com/p/3gtCB
DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

دیکھنے والوں کو یہی گمان ہوتا ہے کہ بس پارک میں زمین پر بیٹھتی ہے۔ کیمرہ ٹکاتی ہے اور فر فر بولنا شروع کر دیتی ہے۔ یوں بھی پانچ منٹ کے وی لاگ میں ایسا بھی کیا جوئے شیر لانا ہوتا ہے۔ آتی ہے اور بس بول کر نکلنے کی کرتی ہے۔ کاش کہ یہ سب اتنا ہی سہل ہوتا، جتنا کہ دیکھنے والوں کی نظر میں ہے۔ کاش زندگی نرم ملائم چاکلیٹ کیک کا وہی پیس ہوتی جو لوگوں کو دور سے دکھائی دیتی ہے۔
وی لاگ کے بعد کمنٹس کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں سے بہت سے لوگ اپنے تجربات بیان کرتے ہیں، میری حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اختلاف کے باوجود شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے، لیکن وہیں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کی زندگی کا واحد مقصد غالباﹰ خواتین کی پوسٹوں پر وہ زبان استعمال کرنا ہے، جو بیان سے باہر ہے۔

ایسی بدتہذیبی دیکھ کر چینل کی شروعات سے لے کر اب تک مجھے اکثر اوقات یہی سننے کو ملا کہ بھئی کوکنگ چینل بنا لو، میک اپ سیکھا لو۔ کوئی ہلکا پھلکا موضوع چنو، کیونکہ تبصروں اور تجزیوں کو تو ہمیشہ سے ہی مردوں کی راجدھانی سمجھا گیا ہے۔

ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں اگر سوشل میڈیا صارفین کی شرح دیکھی جائے تو پانچ مرد اور ایک عورت ہیں۔ یعنی عورتیں کل آبادی کا پچاس فیصد سے زائد ہیں لیکن سوشل میڈیا پر نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ ابھی سے تھکاوٹ ہو گئی ہے، سستانے کو جی چاہتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ ہلکے پھلکے ویڈیو بلاگ بنانے کا آسان رستہ کیوں نہیں چن لیتی؟  مجھے کیا پڑی ہے کہ اپنی ہر صبح کا آغاز انجان لوگوں کی گالم گلوچ سے کروں؟ لوگوں کی صبح کا آغاز خوبصورت کلام سے ہوتا ہے اور مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ بس مغلظات ڈیلیٹ کر لوں۔

مجھے چین کیوں نہیں آتا؟ نوکیلے پتھروں پر چلنے کی کیا مجبوری ہے؟ مجھے تو نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ پھر یہ سب بکھیڑا کیوں؟ لیکن کیا کروں، یہ راہ چن لی ہے تو اب اس پر منزل دیکھنی ہے۔ وہ دن دیکھنا ہے، جب سیاسی اور معاشرتی تجزیہ محض مردوں کی میراث نہ رہے۔

بائی دا وے، یہ تو پوچھنا حماقت ہو گی کہ آپ سوشل میڈیا پر ہیں یا نہیں کیونکہ ظاہری بات ہے کہ آپ کے صبح شام بھی سوشل میڈیا پر گزرتے ہیں۔ آج کل ایک ٹرینڈ #AttacksWontSilenceUs کا بہت چرچا ہے، جس میں وہ خواتین صحافی، جنہیں اختلاف رائے کی بنیاد پر ناقابل بیان زبان میں تنقید اور کردار پر رکیک حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اٹھ کھڑی ہوئی ہیں کہ یہ سب اب نہیں چلے گا۔ اگر کسی بھی سوشل میڈیا صارف کو لگتا ہے کہ ناشائستہ زبان استعمال کر کے خواتین صحافیوں کو خاموش کروایا جا سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے۔

سچ پوچھیے تو یہ ٹرینڈ دیکھ کر لگتا ہے کہ پکچر واقعی ابھی باقی ہے۔ جب تک صبح کی روشنی نظر نہیں آتی، چلتے جانا ہے۔ جب عورتیں بیدار ہوئیں، وہی سویرے کا وقت ہے اور شاید اب سویرا آنے والا ہے۔ ہم عورتیں اُس وقت تک ڈٹی رہیں گی، جب تک اپنی رائے کا اظہار کرنے پر ہمیں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ جب تک ہمیں یہ مشورے نہ دیے جائیں گے کہ بی بی کچھ 'ہلکا پھلکا' کام کرو۔ جب تک اختلاف رائے کی بنیاد پر ہمارے کردار پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ بند نہیں ہوتا، ذرا سی بحث پر ہمارے خاندان کو گفتگو میں گھسیٹنے کی روایت نہیں ٹوٹتی۔ جب وہ دن آ گیا تو میں بھی آرام سے بیٹھ جاوں گی اور موٹر سائیکل پر دنیا کی سیر کو نکل جاوں گی۔ جب تک وہ دن نہیں آتا میں بھی یہیں ہوں اور آپ بھی۔