1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں سونے کے ذخائر: صوبائی مفادات اولین ترجیح، وزیر اعلیٰ

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ11 دسمبر 2014

بلوچستان حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اربوں ڈالر مالیت کے سونے کے ذخائرکے حامل ریکوڈک فیلڈز میں ایکسپلوریشن کے لیے کسی غیر ملکی کمپنی کے ساتھ اس وقت تک معاہد نہیں کیا جائے گا جب تک صوبے کی مطلوبہ شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا۔

https://p.dw.com/p/1E2nR
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچتصویر: Getty Images

کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ صوبائی حکومت صوبے کے قدرتی وسائل کو لوٹنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قدرتی وسائل کےحوالے سے تمام معاہدے مرکز کے نہیں بلکہ صوبے کے مفاد میں کیے جائیں گے۔

وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے ریکوڈک میں سونے کی کان میں 1275 ٹن سے زائد سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، جن کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت 500ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کی ایکسپلوریش کے لیے کئی غیر ملکی کمپنیوں نے مرکزی حکومت سے رابطہ کیا ہے اور وہ ماضی کی طرح حکومت بلوچستان کو نظر انداز کر کے مرکزسے سونے کے وسیع ذخائر کے حامل منصوبے کا ٹھیکہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں مگر ان کی یہ کوششں کامیاب نہیں ہو گی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے قدرتی وسائل سے متعلق تمام معاہدے صوبے کے مجموعی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا، ’’ان غیر ملکی کمپنیوں نے مجھ سے بھی رابطہ کرنے کی کئی بار کوشش ہے تا کہ میں ریکوڈک کے حوالے سے ان سے بات کروں۔ لیکن میں نے ان سے بات نہیں کی۔ ہم اپنے وسائل کے حوالے سے صوبے کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ریکوڈک کے لیے ہم نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، اسی کے ذریعے اس حوالے سے مزید مزاکرات ہوں گے۔‘‘

Abdul Malik Baloch Belutschistan Chief Minister
وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ضلع چاغی کے علاقے ریکوڈک میں سونے کی کان میں 1275 ٹن سے زائد سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، جن کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت 500ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہےتصویر: Getty Images

ضلع چاغی میں سیندک اور ریکوڈک فیلڈز میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کو پاکستان کے ارضیاتی ماہرین نے سن 1970 میں دریافت کیا تھا، جن کا شمار آج دنیا کے پانچویں اور جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔

بلوچ قوم پرست جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے بقول بلوچستان کے قدرتی وسائل سے اس وقت تک استفادہ نہیں کیا جا سکتا جب تک حکومت حقیقی بلوچ رہنماؤں کو اس حوالے سے اعتماد میں نہیں لیتی۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’بلوچستان کے حقیقی بلوچ رہنما یہاں پر اگر آ کر ریفائنری قائم کریں اور اس منصوبے پر صوبے کے جملہ تشخص کے مطابق کام کیا جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہاں تو صورتحال ہی مختلف ہے۔ حکومت وہ نہیں ہے جس میں صوبے کے عوام کی حقیقی نمائندگی شامل ہو۔ ان کے ذریعے سونے کے ان وسیع ذ‌خائر کا اگر کوئی معاہدہ کیا گیا، تو یہ ان وسائل کو مزید تباہی سے دوچار کر دیں گے۔‘‘

واضح رہے کہ ریکوڈک کا ٹھیکہ1993 میں آسٹریلیا کی پی ایچ پی نامی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کی جانب سے بعد میں قواعد و ضوابط کے برعکس اس پروجیکٹ کا ٹھیکہ اطالوی کمپنی ٹیتھیان سے کیا گیا۔ اس معاہدے کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان کی سابقہ حکومت کی درخواست پر منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم متاثرہ اطالوی کمپنی نے بعد میں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ بین الاقوامی عدالت میں چیلنج کر دیا تھا جہاں وہ تاحال زیر سماعت ہے۔