1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں سونے اور تانبے کے ذخائر: بیس سال پرانا معاہدہ کالعدم

7 جنوری 2013

پاکستانی سپریم کورٹ نے صوبہ بلوچستان میں ریکو ڈک کے مقام پر سونے اور تانبے کے ذخائر کی تلاش کے لیے حکومت اور ایک بین الاقوامی کمپنی کے درمیان 20 سال پرانے معاہدے کو خلاف قانون گردانتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/17FRm
تصویر: picture-alliance/dpa

فیصلے کے مطابق 29 جولائی 1993ء کو حکومت بلوچستان اور آسٹریلیا کی بی ایچ پی نامی کمپنی کے درمیان طے پانے والا چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ (چیجوا) معدنیات کی ترقی کے قانون، کان کنی کے قواعد اور زمین کے انتقال سے متعلق قانون کی شقوں سے متصادم ہے۔ عدالت نے بی ایچ پی کی طرف سے اس معاہدے کی ایک اور آسٹریلوی کمپنی منکور اور بعد میں چِلی کی انٹوفگٹا اور کینیڈا کی بیرک گولڈ پر مشتمل کنسورشیم ٹیتھیان کاپر کمپنی کو منتقلی بھی غیر قانونی قرار دے دی۔

Bildergalerie Das Leben in Balochistan
بلوچستان میں بہت بڑی مقدار میں کوئلے کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakar

عدالت نے اپنے فیصلے میں بلوچستان کی موجودہ حکومت کے موقف کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ معاہدہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے طے کیا گیا۔ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل امان اللہ کنرانی نے اپنے ردعمل میں کہا، ’عدالت کا فیصلہ تاریخی ہے۔ غیر ملکی کمپنی نے وہ رعایتیں حاصل کی تھیں، جو ملکی قوانین کے خلاف تھیں۔ اس معاہدے میں ملوث سرکاری اداروں کے اہلکاروں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے‘۔

1993ء میں طے پانے والے اس معاہدے کے تحت غیر ملکی کمپنی کو اس منصوبے سے حاصل ہونے والے منافع کا 75 فیصد جبکہ حکومت کو 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔ تاہم بلوچستان کی موجودہ حکومت نے کمپنی کی طرف سے خام مال نکال کر بیرون ملک منتقل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اس کے لائسنس کی تجدید نہیں کی۔ اس کے بعد ٹیتھیان کاپر کمپنی سپریم کورٹ کے علاوہ سرمایہ کاری سے متعلق تنازعات طے کرنے کے لیے بین الاقوامی کمیشن (ایکسڈ) تک بھی گئی۔ کمپنی نے ایکسڈ سے استدعا کی تھی کہ وہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان کی ٹیم کو چاغی کے علاقے میں معدنیات کے ذخائر پر کام سے روکے۔

Pakistan Oberster Gerichtshof in Islamabad
صوبائی ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق عدالت کا فیصلہ تاریخی ہےتصویر: Abdul Sabooh

کمیشن نے ٹیتھیان کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس کیس میں حکومت بلوچستان کے وکیل اور بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے سے بیرونی سرمایہ کاروں کو پتہ چلے گا کہ شفافیت کی کیا اہمیت ہے۔ ’’اس فیصلے کے یقیناﹰ بین الاقوامی سطح پر بھی مضمرات ہوں گے لیکن اس سے یہ پیغام بھی ملے گا کہ پاکستان میں قانون کا احترام کیا جاتا ہے۔‘‘

تاہم معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلے کے غیر ملکی سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’اب غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں قدم رکھتے ہوئے سو مرتبہ سوچیں گے۔ بے نظیر دور میں بھی آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے معاہدے کیے گئے اور بعد میں نواز شریف حکومت اس کے پیچھے پڑ گئی، جس کے اس شعبے پر اثرات سب کے سامنے ہیں‘۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی استعداد نہیں کہ وہ تنہا اتنے بڑے ذخائر، جن کا حجم دو ارب ٹن کے برابر ہے، کی تلاش اور پھر انہیں قابل استعمال بنا سکے۔ اس کام کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں سے یہ بات کرنا پڑے گی۔

دریں اثناء عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اگر کسی فریق کو فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ اس کے خلاف نظرثانی کی اپیل کر سکتا ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: مقبول ملک