1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برلن میں عرب خاتون کے جنازے کے ساتھ سینکڑوں پولیس اہلکار

28 اپریل 2020

عموماﹰ کسی مشہور شخصیت کی آخری رسومات منظم کرنے کے لیے بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کی تعیناتی دیکھی جاتی ہے۔ لیکن برلن میں ایک عرب خاتون کے خاندان کے افراد ہی اتنے زیادہ تھے کہ پولیس کہ بھاری نفری کی ضرورت پڑ گئی۔

https://p.dw.com/p/3bVHI
Deutschland Berlin | Beerdigung im Clan-Milieu | Polizeieinsatz
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

پیر 27 اپریل کو برلن کی فضاؤں میں پولیس ہیلی کاپٹر نگرانی کر رہا تھا۔ نیچے زمین پر برلن پولیس کے 250 سے زائد اہلکار انتظامات کرنے کے لیے تعینات تھے۔ قبرستان اور مسجد کے گرد و نواح میں کئی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ پولیس اہلکار لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے تدفین کے لیے آنے والے افراد کو سماجی فاصلہ یقینی بنانے کے لیے ہدایات دے رہے تھے۔

عام طور پر کسی غیر مشہور شخصیت کی آخری رسومات کے لیے ایسے انتظامات نہیں کیے جاتے۔ لیکن برلن میں انتقال کر جانے والی اس عرب خاتون کے جنازے کے لیے ایسے انتظامات کی دو بڑی وجوہات تھی۔

ایک تو یہ کہ وفات پانے والی معمر خاتون جرمنی کے ایک مشہور عرب برادری کے گینگ کے سابق رکن کی والدہ تھیں۔ دوسری وجہ یہ بھی بنی کہ انتقال سے قبل خاتون ہسپتال میں داخل تھیں تو ان کی عیادت کے لیے ان کے سو سے زائد عزیز برلن کے ایک ہسپتال کے باہر جمع ہو گئے تھے۔

جرمنی میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی عائد ہے۔ عیادت کے لیے آنے والے افراد کے لیے سماجی فاصلے کے قوانین پر عمل درآمد کے لیے بھی پولیس کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔ پولیس کے مطابق خاتون کے دور دراز کے رشتہ داروں نے خاص طور پر احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی تھیں۔

Deutschland Berlin Beerdigung im Clan-Milieu
کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عائد پابندیوں کے باعث پولیس نے صرف قریبی رشتہ داروں ہی کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی تھی۔تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld

دو برس قبل اس خاندان سے تعلق رکھنے والا ایک شخص پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا تھا۔ مجرمانہ سرگرمیوں میں شامل اس نوجوان کی تدفین کے لیے دو ہزار سے زائد افراد جمع ہوئے تھے۔ خاتون کے جنازے میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد کی شرکت متوقع تھی اس برلن پولیس نے پہلے ہی سے تیاریاں شروع کر رکھی تھیں۔

خاتون کا انتقال جمعرات 23 اپریل کو ہوا تھا تاہم ان کی آخری رسومات پیر ستائیس اپریل کے روز ادا کی گئیں۔

صرف قریبی رشتہ داروں کو اجازت دی گئی

کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے عائد پابندیوں کے باعث پولیس نے صرف قریبی رشتہ داروں ہی کو جنازے میں شرکت کی اجازت دی تھی۔ خاندان نے ساٹھ افراد کی فہرست پولیس کو مہیا کی تھی۔

پولیس نے تدفین کے لیے آنے والے افراد کے شناختی کارڈ دیکھ کر ہی انہیں مسجد اور قبرستان کی جانب جانے کی اجازت دی۔ اس کے باجود شرکا کی تعداد سو سے زائد رہی۔

اس دوران بیس سے زائد افراد کو ایک ساتھ جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور لوگوں کے درمیان کم از کم ڈیڑھ میٹر فاصلہ رکھنا بھی یقینی بنایا گیا تھا۔

پر امن اختتام

تدفین سے قبل پولیس کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا، ''ہم لوگوں کے غم کو سمجھتے ہیں لیکن ہمیں باوقار طریقے سے سماجی فاصلے کے قوانین پر عمل درآمد یقینی بنانا ہے۔‘‘

برلن پولیس کی سربراہ باربرا سلووک نے پیر کی شام بتایا کہ آخری رسومات پرامن طور پر ادا کی گئیں اور اس دوران کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم اس قبیلے کے ایک رکن پر وہاں موجود صحافیوں پر تھوکنے کے الزام میں پولیس رپورٹ درج کی گئی۔

ش ح /  ا ب ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)