1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہبرطانیہ

برطانیہ میں مظاہرے: 'مسجد جاتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے'

5 اگست 2024

برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ ميں ایک حملے کے بعد غلط معلومات پھیلنے کی وجہ سے مسلم مخالف مظاہرے دیکھے گئے۔

https://p.dw.com/p/4j8JC
برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظر
برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظرتصویر: Danny Lawson/AP/picture alliance

برطانیہ کے شہر برمنگھم میں مقیم چوہدری محمد افضل گزشتہ 20 سال سے ٹیکسی چلا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس طویل عرصے میں وہ ہر علاقے میں بلا خوف و خطر جاتے رہے ہیں۔ تاہم اب وہ ایک خوف میں مبتلا ہیں۔

ایسا ان مسلم مخالف مظاہروں کے بعد ہوا ہے جو پچھلے ہفتے برطانوی شہر ساؤتھ پورٹ ميں ایک حملے میں تین نابالغ بچیوں کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے۔ چاقو کے اس حملے میں قریب 11 افراد زخمی بھی ہوئے۔

اس واقعے کے بعد ملزم کی شناخت کے حوالے سے غلط معلومات پھیلنے سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ حملہ آور مسلمان تھا۔ نتیجتاً برطانيہ کے مختلف شہروں ميں مسلم مخالف مظاہرے شروع ہو گئے۔ ساتھ ہی مساجد کو نشانہ بھی بنايا گیا اور متعدد شہروں میں تصادم کے بعد پوليس نے کئی افراد کو حراست ميں لے لیا۔

بعد ازاں یہ واضح ہوا کہ مشتبہ حملہ آور ایک برطانوی شہری ہے، جس کے خاندان کا تعلق روانڈا سے ہے۔

برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظر
برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظرتصویر: Danny Lawson/PA/dpa/picture alliance

 چوہدری محمد افضل کہتے ہیں کہ ساؤتھ پورٹ کے حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے انہیں پریشان کر دیا ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، '' کیونکہ میں ٹیکسی چلاتا ہوں، مجھے مختلف علاقوں میں جانا پڑتا ہے۔ پہلے مجھے کہیں جاتے ہوئے ڈر نہیں لگتا تھا لیکن حالیہ واقعات کی وجہ سے ہر طرف خوف کا ماحول ہے اور اب مجھے کچھ علاقوں میں جاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔‘‘

چوہدری محمد افضل نے مزید کہا کہ تارکین وطن نے برطانیہ کی تعمیر و ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ''لیکن افسوس کی بات ہے کہ اب ایک سانحے کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور مختلف کمیونٹیز کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔‘‘

برمنگھم میں ہی مقیم سینتیس سالہ یاسر حسین بھی چوہدری محمد افضل کی طرح اب خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ واقعات کے بعد وہ کچھ علاقوں میں جاتے ہوئے، اور یہاں تک کے مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات کرے، جن سے برطانیہ میں مقیم ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور دیگر کمیونٹیز میں احساس تحفظ پیدا ہو۔

برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظر
برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظرتصویر: Hollie Adams/REUTERS

فیک نیوز کا شاخسانہ

ساؤتھ پورٹ کے واقعے میں ملزم کی شناخت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی افراد کی جانب سے غلط معلومات پھیلائی گئیں اور ساتھ ہی مہاجرین مخالف اور مسلم مخالف رویے بھی دیکھے گئے۔

اسی دوران برطانیہ کی ریفارم پارٹی کے لیڈر نائجیل فراج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایسی پوسٹ کیں، جن پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس معاملے میں مزید قیاس آرائی کا باعث بنیں۔

ان میں سے ایک پوسٹ میں فراج نے سوال کیا تھا کہ کیا آیا پولیس کی جانب سے حملہ آور کی تمام تفصیلات فراہم نہیں کی جا رہیں۔

برطانیہ کی ریفارم پارٹی کے لیڈر نائجیل فراج
برطانیہ کی ریفارم پارٹی کے لیڈر نائجیل فراجتصویر: Jeff Overs/BBC/Getty Images

مہاجرین اور مسلمانوں کے لیے حالات مزید مشکل ہو سکتے ہیں؟

تجزیہ کا اسٹیو آرلوف کا ماننا ہے کہ برطانیہ میں صرف دائیں بازو کی انتہا پسند تنظیمیں ہی نہیں ہیں بلکہ قدامت پرست پارٹی بھی چاہتی ہے کہ مہاجرین اور مسلمانوں کے لیے حالات مشکل کیے جائیں۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا، '' قدامت پرست پارٹی کے کچھ رہنما پارٹی کو دائیں بازو کے انتہا پسندانہ نظریات کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔"اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا، " آپ سوئیلا بریورمین کا فلطسینی مظاہرین کے حوالے سے بیان پڑھ لیں یا مہاجرین کے حوالے سے پارٹی کی روانڈا کی پالیسی دیکھ لیں۔ اور ایک ٹوری لیڈر نے تو برطانیہ میں حالیہ تشدد کو سیاسی طور پر جائز قرار دے دیا تھا تاہم بعد میں انہوں نے اپنا موقف تبدیل کر لیا۔"

ٹوری لیڈر لارڈ ڈیویز نے ایکس پر حال ہی میں ایک پوسٹ کی تھی، جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے وہ حالیہ تشدد کو "سیاسی طور پر جائز" قرار دے رہے ہیں۔ تاہم تنقید کے بعد انہوں نے اپنے اس بیان پر معافی مانگ لی تھی۔  

اسٹیو آرلوف کو یہ خدشہ بھی ہے کہ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند مظاہرین برطانیہ میں مساجد، پناہ گزینوں کے سینٹرز اور مسلمانوں پر مستقبل میں بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ اس متوقع صورتحال کے پیش نظر "فاشزم مخالف" تمام قوتیں یکجا ہو جائیں۔

برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظر
برطانیہ میں حالیہ مظاہروں کا ایک منظرتصویر: Hollie Adams/REUTERS

'صورتحال زیادہ کشیدہ نہیں ہوگی'

لیکن اس تمام صورتحال کے باوجود کچھ افراد اب بھی پر امید ہیں کہ حالات مزید خراب نہیں ہوں گے۔

لندن میں مقیم پاکستانی نژاد سید محمد علی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں برطانیہ میں موجودہ صورتحال بہت زیادہ کشیدہ نہیں ہو گی۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران کہا، ''دائیں بازو کی تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ کے بہت سارے افراد پہلے ہی پولیس نے گرفتار کر لیے ہیں اور ان کے کارکنان کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں اگر انہوں نے کوئی گڑبڑ کرنے کی کوشش کی، تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ ‘‘

سید محمد علی کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ برطانیہ مختلف میں کمیونٹیز آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے حال ہی میں محرم کا جلوس نکالا تھا اور ہمیں اس کے لیے یہاں ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنے کی پیشکش کی گئی۔‘‘

 برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمرتصویر: Ben Bauer/PA/dpa/picture alliance

'آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا'

ہو سکتا ہے سید محمد علی کا ایسا سوچنا بالکل غلط نہ ہو، جیسا کہ برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے آج بلائے گئے ایک ہنگامی اجلاس میں کیے گئے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ 

لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق کونسلر مشتاق لاشاری نے بھی ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے یقین دلایا کہ حکومت بہت مؤثر طریقے سے اس صورتحال سے نمٹنے  کی کوشش کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا، "جو کوئی بھی قانون کو ہاتھ میں لے گا، اس سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا اور سزائیں دی جائیں گی۔"