1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور افغان خاتون پولیس اہلکار دہشت گردانہ حملے میں ہلاک

کشور مصطفیٰ16 ستمبر 2013

صوبے ہلمند کے ایک ترجمان عمر زاوک کے مطابق سب انسپکٹر نگار گزشتہ روز یعنی اتوار کو اپنے گھر کے باہر اپنی بھیڑوں کا چارہ خریدنے جا رہی تھیں کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کر دیا۔

https://p.dw.com/p/19i6w
تصویر: picture-alliance/empics

جنوبی افغانستان میں آج پیر کی صبح سویرے نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں افغان پولیس کی ایک اعلیٰ عہدیدار ہلاک ہو گئی ہیں۔ چند ماہ قبل ان کی ایک پیشرو کی ہلاکت بھی ایسے ہی ایک دہشت گردانہ واقعے میں ہوئی تھی۔

گزشتہ چند ماہ سے افغانستان کی ممتاز خواتین پر دہشت گردانہ حملوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس صورتحال نے قدامت پسند افغان معاشرے میں پولیس میں خواتین کی بھرتی کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا ہے جبکہ جنگ سے تباہ حال اس ملک میں پہلے ہی پولیس محکمے سے منسلک خواتین اہلکاروں کی شرح بمشکل ایک فیصد ہے۔

صوبے ہلمند کے ایک ترجمان عمر زاوک کے مطابق سب انسپکٹر نگار گزشتہ روز یعنی اتوار کو اپنے گھر کے باہر اپنی بھیڑوں کا چارہ خریدنے جا رہی تھیں کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کر دیا۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے نگار پیر کی صبح سویرے انتقال کر گئیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں زیادہ تر خواتین اپنے ایک ہی نام سے پہچانی جاتی ہیں۔

Jahresrückblick 2004 Februar Polizistin in Kabul
طالبان حکومت سے پہلے بھی خواتین پولیس محکمے میں سرگرم رہی ہیںتصویر: AP

دریں اثناء پولیس کے ایک ترجمان فرید احمد عبیدی نے ایک بیان میں کہا کہ ڈاکٹروں نے نگار کو بچانے کی پوری کوشش کی تاہم وہ پیر کی صبح ایک بجے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ہلمند انتظامیہ کے ترجمان زاوک نے بھی نگار کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔

نگار ایک اعلیٰ پولیس اہلکار تھیں اور شہر لشکر گاہ کے جرائم کی تفتیش کے محکمے میں کام کرتی تھیں۔ انہوں نے گزشتہ جولائی نامعلوم افراد کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی ایک معروف افغان پولیس اہلکار اسلام بی بی کی جگہ یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ اسلام بی بی نے خود بتایا تھا کہ ان کے اپنے رشتہ داروں نے انہیں پولیس محکمے میں بھرتی ہونے کی وجہ سے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی تھیں۔

افغان حکام کی طرف سے نگار کی عمر اور اُن کی پیشہ ورانہ زندگی کے پس منظر کے حوالے سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ کبھی اُن کی عمر 35 اور کبھی 38 بتائی گئی ہے۔ پیر کو اُن کے داماد فیض اللہ خان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ نگار کی عمر 41 برس تھی اور وہ ایک بیٹے اور ایک بیٹی کی ماں تھیں۔ مزید یہ کہ نگار 1990ء کی دہائی میں، طالبان کے برسر اقتدار آنے اور خواتین کی اس محکمے میں بھرتی پر پابندی عائد کرنے سے قبل پولیس اہلکار رہ چُکی تھیں۔ فیض اللہ خان کا نہایت مغموم لہجے میں کہنا تھا، ’’وہ میرے لیے ماں کی طرح تھیں اور میں نے اُن سے بہت کچھ سیکھا تھا۔‘‘

Frauendemonstration in Kabul
خواتین پولیس کی تربیت کا مناسب بندوبست موجود نہیں ہےتصویر: AP

نگار کے داماد فیض اللہ خان نے بتایا کہ نگار کے خاندان کے متعدد افراد پولیس محکمے میں ملازم رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اُن کے بیٹے، بھائی اور خود فیض اللہ خان۔ خاندان کے کسی فرد کو نگار کی پولیس بھرتی پر کوئی اعتراض نہیں تھا تاہم نگار کو طالبان کی طرف سے دھمکیوں آمیز ٹیلی فون موصول ہوتے رہتے تھے۔ 2001 ء میں امریکی قیادت میں افغانستان پر غیر ملکی فوجیوں کے حملے کے نتیجے میں کابل میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے ملک میں شورش اور بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

طالبان نے اب تک نگار پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی اس بارے میں طالبان ترجمان سے کوئی رابطہ ہو سکا ہے۔ تاہم کچھ عرصے سے افغان خواتین پولیس اہلکاروں پر ہونے والے حملوں کا ذمہ دار عسکریت پسند طالبان ہی کو ٹھرایا جا رہا ہے۔

ہلمند کے ایک صوبائی قانون ساز نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ رواں ماہ کے آغاز پر افغان پارلیمان کی ایک خاتون رُکن کو چار ہفتوں تک قید رکھنے کے بعد متعدد عسکریت پسند قیدیوں کی رہائی کے عوض طالبان نے رہا کر دیا تھا۔ رہا ہونے والوں میں چار بے گناہ خواتین اور دو بچے شامل تھے۔

Flash-Galerie berufstätige afghanische Frauen
خواتین کو مختلف شعبوں میں فعال ہونے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہےتصویر: AP

گزشتہ ماہ یعنی اگست میں باغیوں نے افغانستان کی ایک خاتون سینیٹر کے قافلے پر گھات لگا کر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئی تھیں جبکہ اُن کی ایک آٹھ سالہ بیٹی اور اُن کا ایک محافظ مارے گئے تھے۔

اس ماہ کے شروع میں انٹرنیشنل ایڈ ایجنسی آکسفیم کی طرف سے شائع ہونے والی رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ افغانستان کے پولیس محکمے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی بھرتی کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس ضمن میں بہت کم کامیابی ہو رہی ہے۔