1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان، پولیس محکمے میں بھی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک

کشور مصطفیٰ11 ستمبر 2013

وزارت خارجہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی نے اس امر کا اقرار کیا ہے کہ پولیس فورس میں شامل خواتین کو گو ناگوں مسائل کا سامنا ہے۔

https://p.dw.com/p/19fp5
تصویر: picture-alliance/empics

افغانستان کی پولیس فورس میں خواتین کی شرح محض ایک فیصد ہے۔ اس وجہ سے جنگ سے تباہ حال اس ملک میں تشدد میں مسلسل اضافے کے باوجود خواتین پولیس سے انصاف مانگنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہیں۔ اس بارے میں بین الاقوامی ایڈ ایجنسی Oxfam نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ہر 10 ہزار خواتین کے لیے اوسطاً صرف ایک خاتون پولیس آفیسر پائی جاتی ہے جبکہ 2011ء اور 2012 ء میں افغانستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ رپورٹ کیا گیا۔

Oxfam کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس فورس میں کام کرنے والی افغان خواتین کو پولیس محکمے کے اندر اور اس کے باہر، یعنی معاشرے میں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس رپوٹ کے مطابق خاتون پولیس اہلکاروں کو بنیادی اشیاء جیسے کہ یونیفارم وغیرہ بھی مہیا نہیں کیا جاتا جبکہ مرد پولیس اہلکاروں کو یہ چیزیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین سے چھوٹے موٹے کام لیے جاتے ہیں۔ مثلاً انہیں اپنے مرد اہلکاروں کے لیے چائے بنانے اور اُن کی خاطر مدارات پر لگا دیا جاتا ہے۔

Afghanistan Polizei
افغانستان کی پولیس فورس میں خواتین کی شرح محض ایک فیصد ہےتصویر: Reuters

پولیس محکمے میں بھرتی ہونے والی خواتین کو بہت کم یا زیادہ تر کیسز میں کسی قسم کی تربیت نہیں دی جاتی، اس وجہ سے وہ پولیس کے بنیادی فرائض انجام نہیں دے سکتیں۔ نہ تو انہیں جرائم کی تفتیش اور نہ ہی مجرموں کی گرفتاری جیسے اہم کام انجام دینے کا اہل بنایا جاتا ہے۔

Oxfam کی رپورٹ میں ایک خاتون پولیس اہلکار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’ہمارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوتا، جیسا کے مردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہم اگر مردوں کے برابر عہدے پر ہی فائز کیوں نہ ہوں پولیس کمانڈر ہمیشہ ہم سے ہی چائے بنوانے یا ٹائپنگ کا کام لیتا ہے۔‘‘

اُدھر افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی نے اس امر کا اقرار کیا ہے کہ پولیس فورس میں شامل خواتین کو گو ناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ کابل حکومت ان مسائل کے حل کی ممکنہ کوششیں کر رہی ہے اور پولیس محکمے میں مزید خواتین کی بھرتی کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔

Flash-Galerie berufstätige afghanische Frauen
افغان خواتین کو دیگر شعبوں میں بھی آگے لانے کی کوشش کی جا رہی ہےتصویر: AP

صدیقی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’بہت سی خواتین پولیس میں بھرتی نہیں ہونا چاہتیں کیونکہ یہ مشکل کام ہے۔ ہمیں ہر روز دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سلسلے میں کچھ سماجی رکاوٹیں بھی حائل آتی ہیں۔ افغان عوام اب بھی ذہنی طور پر خواتین کی پولیس محکمے میں بھرتی کو غلط تصور کرتے ہیں۔ وہ خواتین کا یہ روپ تسلیم نہیں کر پاتے۔‘‘

وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق اس وقت افغانستان کی پولیس فورس میں دو ہزار دو سو خواتین کام کر رہی ہیں جب کہ کابل حکومت نے اپریل 2014ء کے مجوزہ صدارتی انتخابات سے قبل اس تعداد میں دو گنا اضافے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

افغان سکیورٹی فورسز ملک میں 12 سال سے تعینات امریکی قیادت میں غیر ملکی جنگی فورسز کے ملک سے انخلاء کے بعد ملکی سلامتی کے رسمی طور پر ذمہ دار ہوں گی۔ ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں پر مشتمل مضبوط افغان سکیورٹی فورسز میں پولیس اہلکاروں کی تعداد قریب 157,000 ہے۔ نیٹو مشن کے تحت اس ملک میں تعینات غیر ملکی فورسز کو مسلسل دہشت گردانہ حملوں کا سامنا ہے اور 2011ء کے بعد سے یہاں پولیس اور ملٹری فورسز پر ہونے والے حملوں میں 15 تا 20 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔