1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغور معاملہ: چین پر نئی امریکی پابندیاں

17 دسمبر 2021

امریکا نے ایغور اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر چین کی  جاسوسی اور بائیو ٹیکنالوجی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ چین امریکی ٹیکنالوجی کو ایغور عوام کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/44PE8
Xinjiang, China | Detention Center in Dabancheng
تصویر: Mark Schiefelbein/AP Photo/picture alliance

امریکی محکمہ تجارت اور خزانہ نے جمعرات کے روز چین پر ان نئی کمپنیوں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔ امریکا کا کہنا ہے کہ یہ کمپنیاں چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی بڑے پیمانے پر زیادتیوں میں ملوث ہیں۔

امریکی وزارت کامرس نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پابندیاں بیجنگ کی جانب سے "امریکی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کو لاحق خطرات " کے مدنظر عائد کی گئی ہیں۔

امریکی وزیر کامرس جینا رائے مونڈو کا کہنا تھا،" چین ان ٹکنالوجیز کا استعمال اپنے عوام کو کنٹرول کرنے اور نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپوں کے اراکین کو کچلنے کے لیے کر رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا،" ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ ایسی امریکی اشیا، ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئرز جو میڈیکل سائنس اوربائیو ٹکنالوجی کے شعبے میں اختراعات کے لیے معاون ہیں، ان کا استعمال امریکی قومی سلامتی کے برخلاف کیا جائے۔"

USA Kapitol Washington
تصویر: Liu Jie/Xinhua/picture alliance

امریکی پابندیوں کا کیا اثر پڑے گا؟

جمعرات کے روز امریکی وزارت کامرس کی جانب سے جن کمپنیوں اور اداروں پر پابندی عائد کی گئی ان میں چین کی 'اکیڈمی آف ملٹری میڈیکل سائنسز' بھی شامل ہے۔ اس ادارے کے تحت کام کرنے والے گیارہ تحقیقاتی مراکز پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان اداروں میں بائیو ٹکنالوجی کا چینی فوج کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات ہوتی ہیں۔

محکمہ کامرس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان افراد، تنظیموں اور کمپنیوں پر پابندی عائد کر سکتی ہے جو امریکا کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں یا جو امریکا کی خارجہ پالیسی مفادات سے متصادم ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت اشیاء کی ایکسپورٹ، ری ایکسپورٹ اور ملک کے اندر منتقلی پر پابندی شامل ہے۔ امریکی کمپنیوں یا شہریوں کو ممنوعہ کمپنیوں کے ساتھ تجارت کے لیے پیشگی اجازت لینا پڑتی ہے۔

امریکی وزارت تجارت نے اپنے بیان میں کہا کہ جن آٹھ چینی کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے وہ چین کی ملٹری انڈسٹریل کمپلکس سے منسلک ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ چین کی جارجیا، ملائشیا اور ترکی میں واقع ان کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے جو ایران کو فوجی استعمال کے لیے ٹیکنالوجی منتقل کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

امریکا اور چین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی

امریکہ حالیہ دنوں میں چین پر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ایک روز قبل چین کی درد کش ادویات بنانے والی کمپنیوں کو امریکا کو نشے کے بحران میں مبتلا کرنے پر نشانہ بنایا تھا جبکہ اس سے قبل بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا بھی اعلان کرچکا ہے۔

قبل ازیں امریکی سینیٹ نے جمعرات کو متفقہ طور پر ووٹ دے کر ایک بل کو کانگریس کی حتمی منظوری دے دی، جس کے تحت جبری مشقت کے پھیلاؤ کے خدشات پر چین کے شمال مغربی خطے سنکیانگ سے تقریباً تمام درآمدات پر پابندی عائد کردی گئی۔ ان اقدامات سے امریکا اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے والا پہلا ملک بن گیا ہے۔

اس قانون کو پیش کرنے والے سینیٹر مارکو روبیو کا کہنا تھا،"ہم جانتے ہیں کہ یہ ہولناک نسل کشی خطرناک شرح کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ قانون پہلے ہی ایوان نمائندگان سے منظور ہو چکا ہے اور وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اب اس پر (صدر) بائیڈن دستخط کریں گے۔"

جبری مزدوری کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت چین کے خطے سنکیانگ سے اُس وقت تک تمام اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی گئی ہے جب تک کہ کمپنیاں اس بات کا قابل تصدیق ثبوت پیش نہ کریں کہ پیداوار میں ایغور مسلمانوں کی غلامی یا جبری مشقت شامل نہیں ہے۔

43 Länder verurteilen Menschenrechtsverletzungen Chinas an Uiguren
تصویر: Tayfun Salci/imago images/ZUMA Wire

 الزامات بے بنیاد ہیں، چین

انسانی حقوق کے ماہرین اور امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زائد ایغور اور دیگر ترک بولنے والے مسلمانوں کو زبردستی چین کی 'ہان‘ اکثریت میں ضم کرنے کی کوشش میں کیمپوں میں قید کیا گیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے یہ ثابت کیا ہے کہ چین نے پورے سنکیانگ میں ایک ہائی ٹیک نگرانی کا نظام قائم کر رکھا ہے، جو بائیو میٹرک چہرے کی شناخت کا استعمال کرتا ہے اور اس نے ایغوروں کو دبانے کی منظم کوشش کے حصے کے طور پر 12 سے 65 سال کی عمر کے تمام رہائشیوں سے ڈی این اے نمونے اکٹھے کیے ہیں۔

دوسری جانب چین ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان مقامات کو پیشہ ورانہ تربیتی مراکز قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ بہت سے مغربی ممالک کی طرح وہ بھی مہلک حملوں کے بعد 'بنیاد پرست اسلام 'کے پھیلاؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں