1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی بندرگاہ چابہار میں توسیع، گوادر پورٹ کے لیے نیا چیلنج

عابد حسین
3 دسمبر 2017

ایران نے اپنی ایک اہم بندرگاہ چابہار میں توسیعی منصوبے کو مکمل کر لیا ہے۔ بحیرہء عرب میں یہ ایران کی اہم ترین بندرگاہ قرار دی جاتی ہے۔ اس توسیعی منصوبے پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2og4w
Iran Hafen Kalantari Stadt Chabahar Iran Golf von Oman
تصویر: picture-alliance/dpa

ایران کے صدر حسن روحانی نے چابہار بندرگاہ کے توسیعی منصوبے کی تکمیل پر اس کا افتتاح کیا۔ اس توسیعی منصوبے پر 340 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ اس کثیر سرمایے کے پراجیکٹ کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ایک ذیلی ادارے ختم الانبیا کنسٹرکشن کمپنی نے مکمل کیا ہے۔ ایران میں ختم الانبیا نامی تعمیراتی کمپنی ملک کا سب سے بڑا تعمیراتی ادارہ ہے۔

بھارت کا ایرانی بندرگاہ کے راستے افغانستان کو گندم کا تحفہ

نئی دہلی ایران میں سرمایہ کاری کے لیے تیار

ایران میں چابہار بندرگاہ کی تعمیر کا بھارتی منصوبہ

چین اور بھارت کی اقتصادی دوڑ میں چابہار اور گوادر کی اہمیت

چابہار کی بندر گاہ بحیرہ عرب میں واقع ہونے کے علاوہ انتہائی اسٹریٹیجیک نوعیت کے خلیج عمان کے دہانے پر بھی ہے۔ ایران کی بحر ہند تک رسائی کا بھی یہی بندرگاہ ذریعہ ہے۔ چابہارکے توسیعی منصوبے کی تکمیل پر منعقدہ تقریب میں پاکستانی وفد بھی شریک تھا۔

اس توسیعی منصوبے سے اس  بندرگاہ کے کاروباری حجم میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس توسیعی منصوبے کے بعد سامان سنبھالنے کی کھپت ڈھائی ملین ٹن سے ساڑھے آٹھ ملین ٹن ہو گئی ہے۔ اب چابہار کی بندرگاہ پر ایک لاکھ ٹن سامان رکھنے والے مال برداربحری جہاز لنگر انداز ہو سکیں گے۔

Pakistan Hafen Gwadar
گوادر کی پاکستانی بندرگاہ ایرانی سرحد سے اسی کلو میٹر دور ہےتصویر: picture-alliance/dpa

ایرانی صدر حسن روحانی نے افتتاح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے گوادر کا نام لیے بغیر مسابقتی عمل کے شروع ہونے کو غیراہم قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ چابہار کی بندرگاہ ہمسایہ ملکوں اور خطے میں ریجنل تعاون اور اتحاد میں بڑا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مثبت مقابلے بازی پر یقین رکھتے ہیں۔

خیال کیا گیا ہے کہ اس توسیع سے پاکستان کی زیرتعمیر گوادر بندرگاہ کی اہمیت و حیثیت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا ہو گا۔ چابہار توسیعی منصوبے کی تکمیل کے بعد اب گوادر کو بین الاقوامی شپنگ معاملات میں سخت مسابقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ ایرانی سرحد سے محض اسی کلو میٹر کی دوری پر ہے۔

Iran Rohani, Modi und Ghani in Teheran
چابہار کی بندرگاہ کے توسیعی منصوبے میں افغانستان اور بھارت بھی دلچسپی رکھتے ہیںتصویر: IRNA

ایرانی حکومت کا اگلا پلان یہ ہے کہ اس بندرگاہ کو ریل نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس طرح وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس بندرگاہ سے استفادہ کر سکیں گی۔ بھارت بھی اسی بندرگاہ سے وسطی ایشیائی مار کیٹوں تک رسائی کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک ایک طرف چین کی جانب جائے گا تو دوسری جانب روس کے راستے شمالی یورپ تک پہنچے گا۔