1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

'آلات پھر نصب نہ ہوئے تو معاہدے کی بحالی کو دھچکہ پہنچے گا'

10 جون 2022

جوہری امور سے متعلق اقوام متحدہ کے نگراں ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ نگرانی کرنے والے ایک درجن سے زائد آلات کو ہٹا دینے کا عمل، 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ایک "مہلک دھچکا'' ثابت ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CVSZ
Rafael Mariano Grossi | IAEA Generaldirektor
تصویر: Askin Kiyagan/AA/picture alliance

اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے نو جون جمعرات کے روز کہا کہ ایران نے ان 27 نگرانی کرنے والے آلات کو ہٹانا شروع کر دیا ہے، جو سن 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت اقوام متحدہ کی جانب سے نصب کیے گئے تھے۔

سن 2015 کا جوہری معاہدہ مشترکہ جامع منصوبہ عمل کے نام سے معروف ہے، جس کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا تھا۔

 آئی اے ای اے کے یہ انکشافات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تہران اب یورینیم کی افزودگی زیادہ کرنے لگا ہے، جو ہتھیاروں کے درجے کی سطح پر پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ 

بدھ کے روز آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز نے اس وقت تہران کی سرزنش بھی کی جب وہ ملک میں تین غیر اعلانیہ مقامات پر ایسے جوہری مواد کے بارے میں، ''معتبر معلومات'' فراہم کرنے میں ناکام رہا، جسے انسانی عمل کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔

برطانیہ فرانس، جرمنی اور امریکہ نے اس کے لیے ایک مذمتی قرارداد بھی منظور کی، جس کی 30 دیگر ممالک نے بھی حمایت کی تھی جبکہ چین اور روس نے اس کی  مخالفت کی۔ گزشتہ روز ایران نے آئی اے ای اے کی قرارداد پر تنقید کرتے ہوئے اسے ''جلد بازی'' اور ''غیر متوازن'' قدم قرار دیا تھا۔

Iran IAEA Rafael Mariano Grossi Mohammad Eslami
تصویر: Vahid Salemi/AP Photo/picture alliance

سن 2015 کے معاہدے کے لیے مہلک دھچکا

جوہری توانائی کے بین الاقوامی نگراں ادارے آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ کیمروں کو ہٹا دینے سے، ایران کے جوہری پروگرام پر نظر رکھنے کی اقوام متحدہ کی صلاحیتوں کو ''سنگین چیلنج'' کا سامنا ہے۔

گروسی نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں، ''شفافیت کم ہے، شکوک و شبہات اور غیر یقینی زیادہ ہے۔''  ان کا کہنا تھا اس وقت، ”ہم انتہائی کشیدہ صورتحال میں ہیں۔''

گروسی کا کہنا تھا اگر ایران نے نگرانی کے کچھ اور آلات کو دوبارہ نصب کرنے سے انکار کر دیا تو پھر اس سے  2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے جو مذاکرات جاری ہیں، انہیں ''ایک مہلک دھچکا'' پہنچے گا۔

ایران پر تعاون کرنے کے لیے امریکی دباؤ

اس دوران امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے جمعرات کے روز ایران پر زور دیا کہ وہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون کرے۔ بلنکن نے بھی گروسی کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے اقدامات سے 2015 کے جوہری معاہدے کی ممکنہ بحالی کو خطرہ لاحق ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ''اس طرح کے راستے پر چلنے کا واحد نتیجہ یہ ہو گا کہ جوہری بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا، جو ایران کے لیے مزید اقتصادی اور سیاسی سطح پر تنہائی کا سبب بنے گا۔''

انٹونی بلنکن نے مزید کہا کہ ایران کے جوہری معاہدے پر بات چیت صرف اسی صورت میں با معنی ثابت ہو سکتی ہے جب تہران اپنے اضافی مطالبات ترک کر دے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ یکطرفہ طور پر 2018 میں اس جوہری معاہدے سے باہر نکل گیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں لگانا شروع کر دی تھیں۔ اس معاہدے کی بحالی پر ویانا میں بات چیت دوبارہ شروع ہوئی تھی، تاہم اپریل سے تعطل کا شکار ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید