1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن مذاکرات میں پیشرفت تاہم داخلی سطح پرغنی دباؤ میں

عاطف بلوچ9 جولائی 2015

افغان اراکین پارلیمان صدر اشرف غنی سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ ان قانون سازوں نے نو ماہ قبل صدارت کے عہدے پر فائز ہونے والے غنی کے خلاف کئی محاذ بناتے ہوئے ان کی زندگی مشکل بنا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FvWE
تصویر: DW/H. Hashimi

بدھ کے روز پاکستان میں طالبان باغیوں کے ساتھ منعقد ہوئے مذاکرات پر اگر صدر اشرف غنی کچھ خوش بھی ہیں تو ان کی یہ خوشیاں شائد دیرپا ثابت نہ ہوں۔ 66 سالہ غنی کو داخلی سیاسی محاذوں پر اپنے مخالفین کی طرف سے شدید مزاحمت سامنا ہے۔

ایوان زیریں نے دھمکی دی ہے کہ وہ غنی کے وزیر داخلہ کا مواخذہ کریں گے کیونکہ وہ اسلامی جنگجوؤں کی کارروائیوں کو روکنے کی خاطر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کرسکیں ہیں۔ قبل ازیں گزشتہ ہفتے ہی ان قانون دانوں نے صدرغنی کی طرف سے وزارت دفاع کے نامزد کیے گئے تیسرے سیاستدان کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ملکی فورسز کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ باغی ملک کے مختلف علاقوں میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ برس کے اواخر میں افغان نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد اب افغانستان میں مقامی فورسز کو تعاون فراہم کرنے والے غیر ملکی فوجیوں کی تعداد دس ہزار سے بھی کم ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ اس صورتحال میں اگر صدر اشرف غنی یہ کہیں کہ افغانستان کے صدر کے طور پر ذمہ داریاں نبھانا دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے۔

دوسری طرف افغان صدر کے ترجمان سید ظفر ہاشمی افغانستان میں اس سیاسی رسہ کشی کو غیر اہم خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’افغانستان میں مشکلات ہیں اور یہاں کسی بھی رہنما کے لیے سیاسی حالات سازگار نہیں ہو سکتے ہیں۔‘‘

افغان پارلیمنٹ کا ایوان بالا یعنی سینیٹ گزشتہ اتوار سے ہڑتال پر ہے۔ اس ایوان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت ان کے ’تحفظات‘ کا مؤثر طور پر جواب نہیں دی رہی۔ افغان ہزارہ کمیونٹی کے ایک با اثر سیاستدان محمد محقق کے بقول، ’’موجودہ حکومت مکمل طور پر نیشنل یونٹی سے عاری ہے۔‘‘

Afghanistan Kämpfe in Kunduz
افغانستان میں سیاسی بحران کے نتیجے میں شدت پسند فائڈہ اٹھا سکتے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

اسی طرح افغانستان میں مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے رہنما بھی مرکزی حکومت سے نالاں ہیں۔ انہی میں عبداللہ عبداللہ کا طاقتور تاجک نسلی گروہ بھی شامل ہے۔ اس گروہ کا کہنا ہے کہ صدر غنی اہم عہدوں پر صرف پشتون نسل کے افراد کو ہی فوقیت دیتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ اقرباء پروری افغانستان کا ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے، جس کی بازگشت ماضی میں بھی سنائی دیتی رہی ہے۔

اشرف غنی نے اپنی صدراتی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک ایسی ماہر اور پروفیشنل انتظامیہ بنائے گی، جو قابلیت اور میرٹ کے مطابق ہو گی۔ تاہم نو ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ ملک کے تمام نسلی گروہوں کے تحفظات دور نہیں کر سکیں ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید