1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

امریکی سیاست کبھی 'قتل کا میدان' نہیں بننا چاہیے، بائیڈن

15 جولائی 2024

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے 'سیاست کے درجہ حرارت' کو کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی سیاست کو کبھی بھی 'قتل کا میدان' نہیں بننا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/4iI6n
جو بآئیڈن
بائیڈن نے حالیہ برسوں میں ہونے والی پرتشدد سیاسی کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نوٹ کرتے ہوئے کہا، ''ہم دوبارہ اس راستے پر نہیں جا سکتے اور جانا بھی نہیں چاہیے۔"تصویر: Erin Schaff/REUTERS

گزشتہ روز امریکی ریاست پینسلوینیا کے بٹلر میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ٹرمپ کی ایک ریلی میں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا، جس میں بندوق بردار کی فائرنگ سے ان کا ایک کان زخمی ہو گیا۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور دو شدید طور پر زخمی ہوئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اور عالمی رہنماؤں کا ردعمل

بائیڈن نے امریکی عوام سے کیا اپیل کی؟

اوول آفس سے اپنے خطاب میں صدر جو بائیڈن نے امریکیوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ذرا ''ایک قدم پیچھے ہٹیں۔'' انہوں نے متنبہ کیا کہ فی الوقت ''اس ملک میں سیاسی بیان بازی بہت زیادہ گرم ہو چکی ہے۔''

’ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس پہنچنے سے صرف میں ہی روک سکتا ہوں‘، جوبائیڈن

اپنی تقریباً سات منٹ کی تقریر کے دوران جو بائیڈن نے کہا، ''ہمارے سیاسی نظریات چاہے کتنے ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، ہمیں کبھی بھی تشدد میں نہیں اترنا چاہیے۔''

ٹرمپ کو سابق صدر کے طورپر استثنٰی حاصل ہے، امریکی سپریم کورٹ

اپنے پرائم ٹائم خطاب میں صدر نے امریکیوں سے متحد رہنے کی اپیل کی اور متنبہ کیا کہ بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ نومبر کے انتخابات ''آزمائش کا وقت'' ہو گا۔

امریکہ: بائیڈن اور ٹرمپ میں صدارتی انتخابات کا پہلا مباحثہ کیسا رہا؟

واضح رہے کہ انتخابات سے قبل کے رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صدر بائیڈن اور ڈزنلڈ ٹرمپ کی مقبولیت تقریباً ایک دوسرے کے برابر ہے۔

امریکی صدارتی انتخابات: بھارتی نژاد راماسوامی ٹرمپ کے نائب؟

 بائیڈن نے حالیہ برسوں میں ہونے والی پرتشدد سیاسی کارروائیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو نوٹ کرتے ہوئے کہا، ''ہم دوبارہ اس راستے پر نہیں جا سکتے اور جانا بھی نہیں چاہیے۔''  انہوں نے چھ جنوری کے فسادات، کیپیٹل ہل پر حملے اور ایوان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے شوہر پر حملے جیسے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ''اپنی تاریخ میں اس سے پہلے بھی ہم اس راستے پر سفر کر چکے ہیں۔''

امریکہ میں ایک اور تاریخی مقدمہ،اب صدر بائیڈن کے لیے بری خبر

ان کا کہنا تھا، ''امریکہ میں ہم اپنے سیاسی اختلافات گولیوں سے نہیں بلکہ بیلٹ باکس کے ذریعے حل کرتے ہیں۔''

ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ، امریکی سیاست میں تشدد کا اضافہ

ہفتے کے روز ٹرمپ پر ہونے والے حملے نے امریکہ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں منظر عام پر آنے والی تصاویر میں 78 سالہ ٹرمپ کو دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے کان سے خون ٹپک رہا ہے جبکہ سیکرٹ سروس کے ایجنٹ انہیں ا سٹیج سے اتار کر کار میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیا یہ 'گھریلو دہشت گردی' تھی؟

ایف بی آئی تنہا بندوق بردار کے اس حملے کی اس پہلو سے بھی تفتیش کر رہی ہے کہ کہیں یہ ''گھریلو دہشت گردی'' کا واقعہ تو نہیں ہے۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی اور جرائم سے متعلق تحقیقاتی ایجنسیاں مل کر ٹرمپ پر حملے کے محرکات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

’ڈونلڈ ٹرمپ کو جیل ہونی چاہیے‘، بالغ فلموں کی اداکارہ

ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے کہا، ''تحقیقات کے اس مقام پر، ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور نے تن تنہا یہ کام کیا، لیکن ہمارے پاس ابھی اس کی مزید تفتیش ہونی باقی ہے'' کیونکہ اس کی قاتلانہ حملے کے طور پر اور ممکنہ گھریلو دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر بھی تفتیش کی جا رہی ہے۔

سابق امریکی صدر ٹرمپ تمام چونتیس الزامات میں مجرم قرار

یو ایس سیکرٹ سروس جو کہ امریکی سیاسی رہنماؤں کی حفاظت پر مامور ہے، اس حملے کے بعد سخت تنقید کی زد میں ہے، کہ آخر کس طرح بندوق بردار اس کے نیٹ ورک سے بچنے اور ریلی کے مقام کے قریب ایک نمایاں مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔

 

امریکی ایوان نمائندگان نے اس حوالے سے سیکرٹ سروس کے ڈائریکٹر کمبرلی شیٹل کو 22 جولائی کے دن ایوان میں پیش ہونے کے لیے طلب کیا۔ ہاؤس کے اسپیکر مائیک جانسن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''امریکی عوام سچ جاننے کے مستحق ہیں۔''

حملہ آور کے بارے میں ہمیں کیا معلوم ہے؟

ایف بی آئی نے ٹرمپ پر حملہ کرنے والے بندوق بردار کی شناخت 20 سالہ تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی ہے۔ سیکرٹ سروس کے ایجنٹوں نے اسے جائے وقوعہ پر ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ حملہ آور کی گاڑی میں اور اس کے گھر کے قریب سے دھماکہ خیز مواد بھی حاصل کیا گیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ اس حملے کی وجہ کیا تھی اور محرک کیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کروکس خود ٹرمپ کی جماعت ریپبلکن پارٹی کے ہی ایک رجسٹرڈ کارکن تھے۔ انہوں نے سن 2021 میں جماعت کے ایک لبرل مہم گروپ کو 15 ڈالر کا عطیہ بھی دیا تھا۔

تھامس میتھیو کروکس کے کلاس کے ساتھیوں نے انہیں ایک ایسے خاموش نوجوان کے طور پر بیان کیا، جسے اسکول میں اکثر ڈرایا دھمکایا جاتا ہو۔ پنسلوینیا میں ان کے گھر کے پاس واقع ایک مقامی 'گن کلب' نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ اس کلب کا رکن تھا۔

ہلاک ہونے والا شخص کون ہے؟

اپنے خطاب میں مسٹر بائیڈن نے کہا کہ وہ ریلی کے دوران ایک 50 سالہ سابق فائر فائٹر کوری کمپیریٹور کے خاندان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں، جو فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہو گئے۔

اس واقعے میں دو دیگر افراد شدید طور پر زخمی ہو گئے تھے، تاہم دو بچوں کے باپ کوری اپنے خاندان کو بچانے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے۔

مسٹر بائیڈن نے مسٹر کمپریٹور کو ایک ''ہیرو'' قرار دیا جو ''اپنے پسند کے امیدوار کی حمایت کرنے کے لئے اپنی آزادی کا استعمال کرتے ہوئے'' مارا گیا تھا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)