1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

امریکی دفاعی وفد کا دورہ تائیوان، چین کا شدید رد عمل

2 مارچ 2022

امریکی وفد میں جارج بش اور براک اوباما انتظامیہ کے سابق عہدیدار شامل ہیں۔ وفد ان خدشات کے درمیان تائیوان پہنچا ہے کہ یوکرین پر حملے کے دوران چین بھی جزیرے کے حوالے سے اپنے جغرافیائی اور سیاسی عزائم کومہمیز دے سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/47rF5
Taiwans Außenminister Joseph Wu, rechts, begrüßt Mike Mullen
تصویر: Taiwan Ministry of Foreign Affairs/picture alliance/AP

امریکی محکمہ دفاع کے سابق سربراہان کا ایک وفد منگل کو تائیوان پہنچا جبکہ چین نے اس دورے کی نوعیت کے بارے میں سخت احتجاج کیا ہے۔ یہ وفد امریکی صدر جو بائیڈن نے بھیجاہے جس کا تائیوان کی حکومت نے خیر مقدم کیا۔

اس امریکی وفد میں سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما کے دور کے سابق دفاعی عہدیدار شامل ہیں۔ چین کی ناراضی کے دوران ہی تائیوان نے اس دورے کا یہ کہہ کر خیر مقدم کیا کہ اس سے، مختلف شعبوں میں تائیوان اور امریکی تعاون کے معاملات پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہو سکے گا۔''

یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں تائیوان سے متعلق چین کے جغرافیائی و سیاسی عزائم کے حوالے سے ایک بار پھر خوف کا ماحول پیدا ہوا ہے۔

بیجنگ نے یوکرین کے خلاف روسی جنگ کی مذمت نہیں کی ہے اور اس حوالے سے ماسکو کے خلاف عائد کی جانے والی بھاری پابندیوں پر اس کی تنقید کو بھی اس علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کہ جیسے چین واشنگٹن اور مغرب کی نافرمانی پر آمادہ ہو۔

صدر جو بائیڈن کی طرف سے وفد بھیجنے کا اقدام اپنے پیشروؤں کے رجحان کی پیروی کرنے کے ہی مطابق ہے، جو تائیوان کے ساتھ روابط برقرار رکھنے کے مقصد سے حاضر سروس اور سبکدوش انتظامیہ کے دفاعی اہلکاروں کو بھیجا کرتے تھے۔

بش اور اوباما انتظامیہ کے حکام

جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سابق چیئرمین مائیک مولن اس پانچ رکنی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، جو دو روزہ دورے کے دوران تائیوان کے صدر تسائی انگ وین اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کرے گا۔ تائی پے کے سونگشن ہوائی اڈے پر تائیوان کے وزیر خارجہ جوزف وو نے اس وفد کا استقبال کیا۔

مولن بحریہ کے ایک ریٹائرڈ ایڈمرل ہیں جنہوں نے سابق صدور جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما کے دور میں اعلیٰ امریکی فوجی افسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس میں میگن او سلیوان، بش دور کے سابق نائب قومی سلامتی کے مشیر، اور اوباما کے ماتحت سابق انڈر سکریٹری دفاع مشیل فلورنائے بھی شامل ہیں۔

نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق سینیئر ڈائریکٹر برائے ایشیا، مائیک گرین اور ایوان میڈیروس بھی تائیوان گئے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گروپ کے دورے کا مقصد، ''تائیوان کے لیے ہماری مسلسل مضبوط حمایت کا مظاہرہ کرنا ہے۔''

امریکی کوششوں کا مقدر ناکامی ہے، چین

جزیرہ تائیوان میں جمہوری طرز کی حکومت ہے تاہم چین کا دعوی ہے کہ یہ اس کی اپنی سرزمین ہے اور اس نے اسے چین میں ضم کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ہے۔ بیجنگ تائیوان کی حکومت کے ساتھ امریکی رابطوں پر مسلسل احتجاج کرتا رہا ہے اور منگل کے روز بھی اس نے ایسا ہی کیا۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے اس امریکی دورے کے بارے میں کہا، ''ہمارے ملک کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے چینی عوام کی خواہشیں مستحکم ہیں۔ امریکہ جسے بھی تائیوان کی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے بھیجے گا وہ ناکام ہو کر رہے گا۔''

وانگ نے اس دورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ''امریکہ کی جانب سے تائیوان کے لیے اپنی نام نہاد حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کسی کو بھی بھیجنا فضول ہے۔''

چین امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں تائیوان کو سب سے حساس اور اہم مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے۔ چینی ترجمان نے واشنگٹن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ ''تائیوان کے ساتھ تمام قسم کے سرکاری تبادلے کو روکے اور تائیوان سے متعلق امور میں احتیاط سے کام لے تاکہ چین امریکہ تعلقات کی مجموعی صورتحال کو مزید سنگین نقصانات سے بچایا جا سکے۔''

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)

چین اور لیتھوینیا کا تجارتی تنازعہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں