1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان:بارہ برس سے زیادہ عمر کی لڑکیوں پر گانے کی پابندی

11 مارچ 2021

افغانستان کی حکومت نے مبینہ طور پر ایک فرمان جاری کر کے کہا ہے کہ لڑکیوں کو صرف خواتین کی موجودگی والی تقریبات میں ہی گانے کی اجازت ہوگی۔

https://p.dw.com/p/3qSvw
Afghanistan Bildung Lese- und Schreibfähigkeit
تصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان کی حکومت نے مبینہ طور پر ایک فرمان جاری کر کے کہا ہے کہ لڑکیوں کو صرف خواتین کی موجودگی والی تقریبات میں ہی گانے کی اجازت ہوگی۔ اس پابندی کی سوشل میڈیا پر سخت مخالفت ہو رہی ہے اور بعض افراد اسے طالبان کی پالیسیوں کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق اس فیصلے کے بعد مرد ٹیچروں کو اسکول میں پڑھنے والی لڑکیوں کو گانے کی تربیت دینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

یہ خبر ایسے وقت آئی ہے جب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری مذاکرات کے نتیجے میں اقتدار پر ایک بار پھر طالبان کا کنٹرول ہو سکتا ہے۔

کابل سے نشر ہونے والے ایریانا نیوز کی طرف سے مذکورہ فیصلے کے حوالے سے ایک خط کی نقل ٹوئٹر پر جاری کی گئی ہے جس کے مطابق بارہ بر س سے زیادہ عمر کی لڑکیوں کو صرف ایسی تقریبات میں گانے کی اجازت ہوگی جہاں ”صرف اور صرف خواتین موجود ہوں۔“

جرمنی کی خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق وزارت تعلیم کی ایک ترجمان نجیبہ ارائین نے اس خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا اطلاق تمام صوبوں پر ہوگا۔ نجیبہ ارائین کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ طلبہ اور سر پرستوں کے مشورے  کے بعد کیا گیا ہے۔

کابل کے ایک میڈیا ادارے ناؤ نیوز  کے مطابق گانا سکھانے والے مرد ٹیچروں کو اسکول کی طالبات کو گانا سکھانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اسکول کے پرنسپل اس پابندی کو نافذ کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔

’یہ اچھی بات نہیں ہے‘

اس فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر سخت غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لوگ حکومت کے اس فیصلے کا موازنہ طالبان کے نظریات سے کر رہے ہیں۔

بعض ٹوئٹر صارفین نے حکومت کے فیصلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پرانی تصویریں اور ویڈیو شیئر کی ہیں جن میں نو عمر لڑکیاں رقص کرتی اور گاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

صحافی روچی کمار نے گاتی ہوئی لڑکیوں کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا، ”اگر انہیں قدروں کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی جو طالبان نے کی تھیں تو یہ جمہوریہ کے لیے اچھی بات نہیں ہوگی۔“

افغانستان کی وزیر تعلیم رنگینہ حمیدی کو خواتین کے حقوق کی علمبردار سمجھا جاتا ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے اس پس منظر میں لکھا ”

”میں نے ایک بار پڑھا تا کہ آپ افغان خواتین کی آواز بلند کرنے میں آگے آگے رہی ہیں۔ لیکن مجھے نہیں معلوم آپ اپنی آواز  کو نو عمر افغان لڑکیوں کی آواز بند کرنے کے لیے استعمال کریں گی۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ اس کے پیچھے آپ کی منطق کیا ہے۔ مقصد کیا ہے؟“

دوسری طرف بعض افراد نے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ سر پرستوں نے بچیوں کو ہراساں کیے جانے کی شکایت کی تھی اور اپنے بچوں کے تحفظ کی اپیل کی تھی۔

تاہم فیصلے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو گانے پر پابندی عائد کردیے جانے سے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ ختم نہیں ہو جائے گا۔

ج ا/ ص ز (فرح بہجت)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں