طالبان نے برطانوی اور امریکی شہری حراست میں لے لیے
19 فروری 2022برطانوی حکومت کی جانب سے رواں ہفتے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ ان کے کئی شہری طالبان کی قید میں ہیں۔ برطانوی حکومت نے زیر حراست افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی۔
تاہم سابق فری لانس صحافی اور اب ایک کاروباری شخصیت پیٹر جووینل کی اہلیہ حسینہ سید نے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا نے ان کے خاوند کو گزشتہ برس 13 دسمبر کو گرفتار کیا گیا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سالیون نے نشریاتی ادارے سی این این کو بتایا کہ واشنگٹن حکومت اپنے شہری کی رہائی کے لیے 'بھرپور کوششیں‘ کر رہی ہے۔ تاہم انہوں نے 'معاملے کی حساسیت‘ کے پیش نظر مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
کتنے غیر ملکی طالبان کی حراست میں ہیں؟
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق ایک امریکی شہری کے علاوہ کم از کم چار برطانوی شہری بھی طالبان کی قید میں ہیں۔ تاہم سی این این کی رپورٹ کے مطابق طالبان نے گزشتہ دو ماہ کے دوران امریکی شہری کے علاوہ کم از کم چھ برطانوی شہریوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔
طالبان نے اب تک عوامی سطح پر ان افراد کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی بیان جاری کیا ہے۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس کی طرف سے کیے گئے رابطے کا بھی کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
پیٹر جووینل کا معاملہ
افغانستان ہی سے تعلق رکھنے والی حسینہ سید نے اپنے برطانوی خاوند پیٹر جووینل کی گرفتاری کے معاملے پر اے پی کو بتایا کہ ان کے خاوند افغانستان میں کاروباری مواقع کی تلاش میں کابل گئے تھے۔ وہ لیتھیم کی کان کنی میں بھی سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے اور انہیں اکیلے گرفتار کیا گیا، یعنی ان کی گرفتاری کا تعلق زیر حراست دیگر مغربی شہریوں سے نہیں ہے۔
سن 80 کی دہائی میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران پیٹر جووینل فری لانس صحافی اور کیمرہ مین کے طور پر کام کرتے تھے اور تب سے ان کا افغانستان آنا جانا تھا۔ اسی دوران انہوں نے حسینہ سید سے شادی کی اور ان کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔ وہ پشتو اور دری زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔
پیٹر جووینل نے 2001 ء میں طالبان کے اقتدار کے خاتمے اور امریکی اور اتحادیوں کے افغانستان پر قبضے کے بعد کابل میں ایک گیسٹ ہاؤس بھی بنایا تھا جو خاص طور پر افغانستان آنے والے صحافیوں میں بے حد مقبول تھا۔
دسمبر میں سرمایہ کاری کی غرض سے افغانستان کے موجودہ سفر کے دوران پیٹر جووینل نے ملک پر برسراقتدار طالبان کے وزیر برائے کان کنی سے ملاقات بھی کی تھی۔
حسینہ سید نے بتایا کہ ان کے خاوند طالبان حکام سے مسلسل رابطے میں رہ رہے تھے تاکہ انہیں پیٹر کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات ہوں۔
برطانوی حکومت کیا کہتی ہے؟
برطانوی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ لندن حکومت اپنے شہریوں کی گرفتاری کے معاملے پر طالبان سے رابطے میں ہے۔
رواں ہفتے کے اوائل میں جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ''برطانوی حکام نے شہریوں کی گرفتاری کا معاملہ ہر موقع پر طالبان کے ساتھ اٹھایا ہے، گزشتہ ہفتے وفد کے دورہ کابل کے دوران بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا۔‘‘
تاہم برطانوی حکومت نے اس سے زیادہ معلومات فراہم نہیں کیں اور نہ ہی گرفتاریوں کے بارے میں کوئی وضاحت کی گئی ہے۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس نے امریکی و برطانوی شہریوں کے گرفتاریوں کے معاملے سے واقف ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ گرفتار افراد میں سے دو بظاہر اس لیے افغانستان گئے تھے تاکہ وہ افغان شہریوں کو ملک سے نکلنے میں مدد کر سکیں۔
طالبان واضح کر چکے ہیں کہ باقاعدہ دستاویزات نہ رکھنے والے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ش ح / ک م (اے پی، اے ایف پی)