1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان نے حراست میں لیے گئے صحافیوں کو رہا کردیا

12 فروری 2022

صحافیوں کے ساتھ کام کرنے والے افغان شہریوں کو بھی جمعے کے روز رہا کردیا گیا۔ طالبان نے گذشتہ سال اگست میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی میڈیا اور اظہار رائے کی آزادی پر سخت پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/46ui5
Afghanistan | Stadtansicht von Kabul
تصویر: Adrien Vautier/Le Pictorium/MAXPPP/dpa/picture alliance

طالبان کے نائب وزیر برائے ثقافت اور اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں بتایا کہ صحافیوں کو اس لیے حراست میں لیا گیا تھا کیونکہ ان کے پاس ایسے کوئی شناختی دستاویزات نہیں تھے جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ وہ اقوام متحدہ پناہ گزین ایجنسی (یو این ادیچ سی آر) کے لیے کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جب ان کی شناخت کی تصدیق ہوگئی تو انہیں آزاد کردیا گیا۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق،''وہ ان تمام افراد کی مشکور ہے جنہوں نے تشویش کا اظہار کیا اور مدد کی پیش کش کی۔‘‘

اغواکیے جانے والے صحافیوں میں سے ایک اینڈریو نارتھ تھے، جو بی بی سی کے سابق نامہ نگار ہیں اور تقریبا ً دو دہائیوں تک افغانستان کے امور کی کوریج کرتے رہے ہیں۔

وہ افغانستان میں مسلسل ابتر ہوتے انسانی بحران کو رپورٹ کرنے کے لیے اس جنگ زدہ ملک کا مسلسل دورہ کرتے رہے ہیں۔

صحافیوں کے خلاف طالبان کی کارروائی

قبل ازیں صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے) نے طالبان سے صحافیوں کو فوراً رہا کرنے کی اپیل کی تھی۔

سی پی جے کے ایشیا پروگرام رابطہ کار اسٹیون بٹلر کا کہنا تھا،''اقوام متحدہ پناہ گزین ایجنسی کے ساتھ کام کرنے والے دو صحافیوں کو حراست میں لیاجانا مجموعی طور پر پریس کی آزادی کی صورتحال میں پستی اور صحافیوں پر ہونے والے حملوں میں اضافے کا ثبوت ہے۔‘‘

اس ماہ کے شروع میں رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اطلاع دی تھی کہ کم از کم 50 میڈیا کارکنوں کو پولیس یا طالبان کی خفیہ ایجنسی نے گرفتار کیا یا حراست میں لیا ہے۔

سی پی جے کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو گرفتار کرکے بعض اوقات کئی گھنٹے اور یہاں تک کہ ایک ہفتے جیلوں میں رکھا گیا۔

ج ا/   ک م  (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں