1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ کا آغاز

شامل شمس5 اپریل 2014

شورش زدہ ملک افغانستان میں پہلی مرتبہ جمہوری حکومت کی منتقلی کے سلسلے میں صدارتی انتخابات آج ہو رہے ہیں۔ پولنگ کا عمل مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوا اور یہ سہ پہر چار بجے تک جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/1BcN3
تصویر: picture alliance/dpa

آج کے صدارتی الیکشن میں بارہ ملین رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں لیکن عسکریت پسند تنظیم طالبان کی مسلح کارروائیوں اور دھمکیوں کے تناظر میں ٹرن آؤٹ کم رہ سکتا ہے۔ حالیہ پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے سارے افغانستان میں انتخابات کے موقع پر حکومت نے سکیورٹی کو ہائی الرٹ کر رکھا ہے۔

افغان وزیر داخلہ عمر داؤد زئی کے مطابق قریباً چار لاکھ افغان سیکورٹی فورسز پورے ملک میں پولنگ کی نگرانی کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ اِن میں فوج، پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔

موجودہ صدر حامد کرزئی مسلسل دو مرتبہ صدر رہنے کے بعد تیسری مدت کے لیے دستور کے تحت الیکشن میں شریک نہیں ہو سکتے۔ مبصرین کے خیال میں کرزئی منصب صدارت سے فارغ ہونے کے بعد بھی ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر افغان سیاسی منظر پر متحرک رہیں گے۔

PT Präsidentschaftskandidaten für die Wahlen in Afghanistan 2014
افغان صدارتی الیکشن میں شامل امیدوار

بظاہر صدارتی الیکشن میں مقابلہ آٹھ افراد کے درمیان ہے لیکن اصل مقابلہ تین امیدواروں کے درمیان خیال کیا جا رہا ہے۔ ان میں دو سابق وزرائے خارجہ عبداللہ عبداللہ اور زلمے رسول کے ساتھ سابق وزیر خزانہ اشرف غنی فرنٹ لائن امیدوار ہیں۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ آج کا انتخابی عمل سن 2009 کے الیکشن سے خاصا بہتر ہو سکتا ہے۔

اگر کوئی امیدوار 50 فیصد مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکا تو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان دوسرے مرحلے کے الیکشن 28 مئی کو ہوں گے۔

عبوری نتائج کا اعلان چوبیس اپریل تک متوقع ہے۔

طالبان عسکریت پسندوں نے انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہوا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان کی جانب سے کابل پر متعدد حملے بھی کیے گئے، جن میں سے ایک حملہ افغان الیکشن کمیشن کے دفتر پر بھی کیا گیا۔ افغان حکام اور بین الاقوامی فورسز کی پوری کوشش ہے کے پولنگ کے دوران کوئی ناخوش گوار واقعہ رونما نہ ہو۔

امسال افغانستان سے نیٹو افواج بھی رخصت ہو رہی ہیں اور آئندہ صدر کے لیے ملک کی سلامتی کی صورت حال ایک بڑا امتحان ہوگی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید