1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستآسٹریا

آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کے لیڈر کو حکومت سازی کی دعوت

6 جنوری 2025

یورپی ملک آسٹریا میں صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت فریڈم پارٹی کے لیڈر ہیربرٹ کِکل کو نئی ملکی حکومت کی تشکیل کی دعوت دے دی ہے۔ آسٹرین صدر کے بقول ان کے لیے یہ کوئی ’’آسان فیصلہ‘‘ نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/4osGG
آسٹریا کے صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن، بائیں، اور فریڈم پارٹی کے سربراہ ہیربرٹ کِکل ویانا کے صدارتی محل میں
آسٹریا کے صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن، بائیں، اور فریڈم پارٹی کے سربراہ ہیربرٹ کِکل ویانا کے صدارتی محل میںتصویر: photonews.at/Imago

جرمنی کے ہمسایہ ملک آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے پیر چھ جنوری کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ ویک اینڈ پر یہ ملک اس وقت سیاسی بحران کا شکار ہو گیا تھا، جب سیاسی طور پر اعتدال پسندانہ سوچ کی حامل جماعتوں پر مشتمل ایک مخلوط حکومت بنانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔

یورپی یونین کا اجلاس: انتہائی دائیں بازو کے عروج کے درمیان توجہ ہجرت پر

یہ جماعتیں انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل جماعت فریڈم پارٹی کو ساتھ ملائے بغیر حکومت سازی کی کوششیں کر رہی تھیں، لیکن آپس میں ہی متفق نہ ہو سکیں۔

ہیربرٹ کِکل کو حکومت سازی کی دعوت

ایلپس کی جمہوریہ آسٹریا کو اسے درپیش موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے اور اپنے آئنیی فرائض انجام دیتے ہوئے وفاقی صدر فان ڈئر بیلن کو یہ کرنا پڑا کہ انہوں نے فریڈم پارٹی (FPO) کے رہنما ہیربرٹ کِکل سے ملاقات کی اور انہیں نئی ملکی حکومت تشکیل دینے کی دعوت دے دی۔

’میرے لیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا،‘ آسٹرین صدر فان ڈیر بیلن
’میرے لیے یہ کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا،‘ آسٹرین صدر فان ڈیر بیلنتصویر: Heinz-Peter Bader/AP Photo/picture alliance

صدر فان ڈئر بیلن نے فریڈم پارٹی کے سربراہ سے اپنی ملاقات کے بعد ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب میں کہا، ''میں نے انہیں (کِکل کو) یہ ذمے داری سونپی ہے کہ وہ آسٹرین پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی کوشش کرتے ہوئے سیاسی مذاکرات کا آغاز کریں۔‘‘

صدر آلیکسانڈر فان ڈئر بیلن نے واضح کیا، ''میرے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا۔‘‘

کِکل کو حکومت بنانے کی دعوت دینا صدر فان ڈئر بیلن کے لیے ان کی سیاسی سوچ میں مجبوری میں آنے والی لیکن ایک ڈرامائی تبدیلی ہے۔ اس لیے کہ ماضی میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی آسٹرین گرین پارٹی کے سربراہ کے طور پر فان ڈئر بیلن فریڈم پارٹی پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور ان کے اس پارٹی کے رہنما ہیربرٹ کِکل کے ساتھ سیاسی جھگڑے بھی ہوتے رہے ہیں۔

لیکن ملکی صدر کِکل کو نئی حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی دعوت دینے پر اس لیے مجبور ہو گئے کہ مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی پارٹیاں مل کر حکومت بنانے میں ناکام ہو گئی تھیں۔

اپنے عہدے اور پارٹی قیادت سے مستعفی ہو جانے والے آسٹریا کے وفاقی چانسلر کارل نیہامر
اپنے عہدے اور پارٹی قیادت سے مستعفی ہو جانے والے آسٹریا کے وفاقی چانسلر کارل نیہامرتصویر: Andreas Stroh/ZUMA Press Wire/picture alliance

فریڈم پارٹی کی سیاسی سوچ اور اس کی تاریخ

آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کی پاپولسٹ فریڈم پارٹی یورپ کے بارے  میں امید پسندانہ کے بجائے قنوطیت پسندانہ سوچ کی حامل ہے، وہ روس کے بارے میں بھی دوستانہ طرز فکر رکھتی ہے اور اسے گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں 29 فیصد ووٹ ملے تھے۔

اس جماعت کو اب اپنی واحد ممکنہ حلیف اور قدامت پسندوں کی جماعت پیپلز پارٹی (OVP) کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا ہیں۔ اگر ان دونوں پارٹیوں نے مل کر ویانا میں اگلی مخلوط وفاقی حکومت بنا لی، تو ایسا اس پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہو گا کہ وہ آسٹریا میں کسی حکومت کی قیادت کرے گی۔

یہ آسٹرین سیاسی جماعت 1950 کے عشرے میں قائم کی گئی تھی اور اس کے بانی رہنما ایک ایسے سیاستدان تھے، جو نازی دور میں ہٹلر کی انتہائی بااثر پیراملٹری فورس ایس ایس (SS) کے ایک اعلیٰ افسر رہے تھے۔

آسٹریا کی فریڈم پارٹی کے سربراہ ہیربرٹ کِکل، بائیں، کی جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی کی سربراہ ایلس وائیڈل کے ساتھ ایک تصویر
آسٹریا کی فریڈم پارٹی کے سربراہ ہیربرٹ کِکل، بائیں، کی جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اے ایف ڈی کی سربراہ ایلس وائیڈل کے ساتھ ویانا میں ایک تصویرتصویر: Eva Manhart/APA/picture alliance

ہیربرٹ کِکل کے خلاف احتجاج

فریڈم پارٹی کے سربراہ ہیربرٹ کِکل جب صدر فان ڈئر بیلن سے ملاقات کے بعد واپس جانے لگے تو صدارتی محل کے باہر انہیں ایسے سینکڑوں مظاہرین کے احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا، جن میں عام شہری اور یہودی طلبہ بھی شامل تھے اور بائیں بازو کی سیاسی کارکن بھی۔

یہ مظاہرین آوازے کس رہے تھے، سیٹیاں بجا رہے تھے اور ساتھ ہی وہ ''نازیوں کو باہر نکالو‘‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان مظاہرین نے ایسے بینر بھی پکڑے ہوئے تھے، جن پر لکھا تھا: ''ہم انتہائی دائیں بازو کا شدت پسند آسٹریا نہیں چاہتے۔‘‘

آسٹریا: حملے کی دھمکی کے سبب ٹیلر سوئفٹ کے پروگرام منسوخ

فریڈم پارٹی ملکی صدر سے گزشتہ ستمبر کے قومی الیکشن کے بعد اس وجہ سے بھی شدید ناراض تھی کہ انہوں نے ابتدا میں اس جماعت کو حکومت سازی کی دعوت نہیں دی تھی۔ تب اس کی وجہ یہ تھی کہ کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانا نہیں چاہتی تھی۔

آسٹرین پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل کرسٹیان شٹوکر جنہیں پارٹی نے اپنا عبوری سربراہ نامزد کیا ہے
آسٹرین پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل کرسٹیان شٹوکر جنہیں پارٹی نے اپنا عبوری سربراہ نامزد کیا ہےتصویر: Heinz-Peter Bader/AP/picture alliance

ویانا میں سینیٹری پیڈز مفت فراہم کرنے کی اسکیم

اسی لیے تب صدر نے قدامت پسندوں کی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دی تھی، جو الیکشن میں عوامی تائید کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر رہی تھی اور اس کے سربراہ کارل نیہامر وفاقی چانسلر بنے تھے۔

نیہامر چند ماہ تک مرکز کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹیوں کے ساتھ مل کر پہلے ایک تین جماعتی اور پھر دو جماعتی مخلوط حکومت تشکیل دینے کی کوشش کرتے رہے تھے۔

مگر گزشتہ ویک اینڈ پر جب وہ حتمی طور پر ناکام ہو گئے، تو انہوں نے اپنی پارٹی اور حکومت دونوں کی سربراہی سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا۔

دنیا کے قدیم ترین اخبار کی کاغذ پر اشاعت بند کرنے کا فیصلہ

ویانا میں صدارتی محل کے باہر فریڈم پارٹی کے سربراہ کِکل کے خلاف احتجاج کرتے عام شہری
ویانا میں صدارتی محل کے باہر فریڈم پارٹی کے سربراہ کِکل کے خلاف احتجاج کرتے عام شہریتصویر: Andreas Stroh/ZUMA/picture alliance

آئندہ کیا ہو سکتا ہے؟

اگر ہیربرٹ کِکل ویانا میں نئی وفاقی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے، تو فریڈم پارٹی کی تقریباﹰ سات عشروں پر پھیلی ہوئی تاریخ میں یہ اس کی آج تک کی سب سے بڑی سیاسی کامیابی ہو گی۔

دوسری طرف وفاقی صدر فان ڈئر بیلن کئی مرتبہ واضح کر چکے ہیں کہ وہ بطور صدر اس امر کو ہمیشہ یقینی بنائیں گے کہ آسٹریا میں ''جموریت کے کلیدی ستون‘‘ اپنی جگہ پر قائم رہیں۔ اس سے ان کی مراد خاص طور پر انسانی حقوق، غیر جانبدار میڈیا اور یورپی یونین میں آسٹریا کی رکنیت کا ہر حال حال میں مکمل احترام تھا۔

موجودہ حالات میں اگر فریڈم پارٹی اور پیپلز پارٹی بھی مل کر نئی وفاقی حکومت نہ بنا سکیں، تو پھر آسٹریا میں قبل از وقت ہی نئے قومی انتخابات کے انعقاد کا امکان بہت زیادہ ہو جائے گا۔

م م / ع ت (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)