یوکرائن میں جھڑپوں کے بعد عام ہڑتال
2 دسمبر 2013وہ یوکرائن کی حکومت کی طرف سے یورپی یونین کے ساتھ ایک تاریخی معاہدہ طے کرنے سے انکار کے فيصلے کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کر رہے تھے کہ کییف میں ملکی حکومت مستعفی ہو جائے اور قبل از وقت عام انتخابات کرائے جائیں۔
خبر ایجنسی اے ایف پی نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ یوکرائن کے دارالحکومت کے مشہور آزادی اسکوائر میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب ہزار ہا احتجاجی مظاہرین نے رات کھلے آسمان کے نیچے گزاری۔
یہ مظاہرین روس پر بھی تنقید کر رہے تھے، جس کے اقتصادی دباؤ کی وجہ سے یوکرائن نے ولنیئس میں ہونے والی یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس میں یونین کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق کییف کے آزادی چوک ميں گزشتہ رات مظاہرین نے اپنے بیس ایسے بڑے بڑے کیمپ بھی قائم کر لیے، جیسے عام طور پر فوجی استعمال کرتے ہیں۔ سخت سردی سے بچنے کے لیے یہ مظاہرین زیادہ تر ان کیمپوں میں موجود رہے۔ اس دوران ایک اسٹیج پر کئی موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے اور کئی اپوزیشن ارکان پارلیمان نے ان احتجاجی کارکنوں سے ملاقاتوں کے لیے آزادی چوک کے دورے بھی کیے۔
کییف سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق اس دوران پانچ ہزار سے زائد مظاہرین نے کچھ ہی دور اس علاقے کا رخ بھی کر لیا جہاں حکومتی اور صدارتی انتطامیہ کے دفاتر قائم ہیں۔ یہ احتجاجی کارکن حکومت پر اس بارے میں دباؤ بڑھانا چاہتے تھے کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائے۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق کییف شہر کا تاریخی حصہ کل رات بھر اپوزیشن کارکنوں کی گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور مقامی گرجا گھروں میں خاص طور پر بجائی جانے والے گھنٹیوں کی آوازوں سے گونجتا رہا۔
یوکرائن 46 ملین کی آبادی والا ایسا مشرقی یورپی ملک ہے، جس کی اقتصادی حالت اچھی نہیں ہے اور جسے اس وقت گزشتہ ایک دہائی کے شدید ترین بحران کا سامنا ہے۔ یہ اقتصادی بحران اس وقت داخلی طور پر ایک سیاسی بحران بھی بن گیا تھا، جب گزشتہ جمعے کے روز ملکی صدر وکٹر یانُوکووِچ نے ولنیئس میں ہونے والی یورپی سربراہی کانفرنس کے دوران برسلز کے ساتھ ایک دوطرفہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یورپی یونین اس معاہدے پر دستخط نہ ہو سکنے کا الزام بنیادی طور پر روس پر ڈالتی ہے، جس نے یوکرائن کو دھمکیاں دی تھیں کہ اگر اس نے یورپی یونین کے ساتھ معاہدہ کیا تو کییف کو ماسکو کی طرف سے شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب صدر یانُوکووِچ کا انکار ان کے لیے سیاسی طور پر اس لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا ہے کہ ملکی اپوزیشن اس صدارتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے اپنی احتجاجی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اس لیے کہ یوکرائن میں پہلے ہی روزگار کی منڈی کو بحران کا سامنا ہے اور عوام ملک میں پائی جانے والی کرپشن پر بھی ناراض ہیں۔ اس پس منظر میں یوکرائن میں کئی اپوزیشن رہنماؤں کا اب یہ بھی کہنا ہے کہ یوکرائن میں ایک نیا انقلاب شروع ہو رہا ہے۔