یوکرائن، تحریک عدم اعتماد ناکام، مظاہرے
3 دسمبر 2013یوکرائن کے صدر وکٹور یانوکووِچ نے حال ہی میں اُس معاہدے کی تیاریاں منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کا مقصد یورپی یونین کے ساتھ اِس ملک کے سیاسی اور اقتصادی روابط کو مزید مستحکم بنانا تھا۔ صدر کے اس فیصلے کے بعد سے ملکی اپوزیشن سراپا احتجاج ہے اور 2004ء کے اورِنج انقلاب کے بعد سے پہلی مرتبہ گزشتہ اتوار کو تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد نے دارالحکومت کییف کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ پولیس کی طرف سے مظاہرین کو بے رحمی کے ساتھ منتشر کرنے کی کارروائیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے تاہم مختلف سیاسی جماعتوں کے ایک ڈھیلے ڈھالے اتحاد پر مشتمل اپوزیشن کوئی متحد قوت بنتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
آج اپوزیشن کی جانب سے 450 رکنی پارلیمان میں لائی گئی عدم اعتماد کی تحریک چالیس ووٹوں کی کمی کی وجہ سے ناکام رہ گئی تاہم یہ تحریک کامیاب بھی ہو جاتی تو بھی اس کے نتیجے میں صرف وزیر اعظم اور کابینہ کو جانا پڑتا جب کہ صدر یانوکووِچ بدستور اپنے عہدے پر فائز رہتے۔
آج پارلیمان کے اجلاس میں اپنی کابینہ کے ساتھ موجود وزیر اعظم مائیکولا آذاروف نے مظاہرین کے خلاف پولیس کے تشدد کے لیے تو معذرت طلب کی تاہم عمومی طور پر اُنہوں نے اپنی حکومت کی پالیسیوں کا دفاع کیا اور سرکاری دفاتر کو جانے والے راستوں کو بلاک کرنے والے مظاہرین کی مذمت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ ’اس طرح کی کارروائیاں یورپی انضمام کی جانب نہیں بلکہ آمریت کی طرف لے کر جاتی ہیں‘۔
آذاروف اور یانوکووِچ بھی یورپی یونین کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات تو چاہتے ہیں تاہم وہ روس کے ساتھ تجارت میں ہونے والے اُس نقصان کو برداشت نہیں کر سکتے، جو اُنہیں ممکنہ طور پر اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یوکرائن کا اپنے ہمسایہ ملک روس سے ملنے والی گیس پر بھی انحصار بہت زیادہ ہے اور روس نے ماضی میں گیس کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ روس کے ساتھ گیس کی ایک ڈیل ہی کی وجہ سے یوکرائن کی سابق خاتون وزیر اعظم یُولیا تیموشینکو آج کل جیل میں ہیں اور کییف حکومت اُنہیں علاج معالجے کے لیے جرمنی کے سفر کی اجازت دینے سے انکار کر رہی ہے۔
روس یورپی یونین کے ساتھ یوکرائن کے زیادہ قریبی تعلقات کی مخالفت کر رہا ہے اور اُسے متعدد سابق سوویت جمہوریاؤں کے تجارتی اتحاد میں شمولیت کا قائل کرنا چاہتا ہے۔
اسی دوران آج منگل کو صدر وکٹور یانوکووِچ چین کے دورے کے لیے روانہ ہو گئے، جہاں وہ غالباً اقتصادی تعاون کے کئی ایک سمجھوتوں پر دستخط کریں گے۔
دریں اثناء تحریکِ عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد بھی کئی ہزار مظاہرین پارلیمان کی عمارت کے سامنے دھرنا دیے بیٹھے ہیں تاہم کسی ناخوشگوار واقعے یا بد امنی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔