1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یوکرائن بیل آؤٹ برادر ملک کے ناتے‘، پوٹن

امجد علی19 دسمبر 2013

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک پُر ہجوم سالانہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمسایہ ملک یوکرائن کو یورپ کے چُنگل سے بچانے کے لیےنہیں بلکہ ایک ’برادر ملک‘ ہونے کے ناتے پندرہ ارب یورو کا بیل آؤٹ پیکج دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1AcXd
Wladimir Putin Präsident Russland Moskau PK Pressekonferenz 19.12.2013
تصویر: picture-alliance/dpa

رواں ہفتے منگل کے روز روس نہ صرف یوکرائن کے پندرہ ارب یورو مالیت کے یورو بانڈز خریدنے پر راضی ہو گیا بلکہ اُس نے اُس روسی گیس کی قیمت میں بھی کمی کا اعلان کیا، جو یوکرائن روس سے خریدتا ہے۔ ابھی ایک ہی ہفتہ قبل یوکرائن کی کییف حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ ایک تجارتی معاہدے کی تیاریاں عین آخری لمحات میں منسوخ کر دی تھیں، جس کے بعد ملک بھر میں اور بالخصوص دارالحکومت کییف میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

جمعرات کو نیوز کانفرنس میں پوٹن نے کہا کہ یوکرائن کو مشکل حالات کا سامنا ہے:’’اگر ہم واقعی یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارا ایک برادر ملک ہے، برادر قوم ہے تو پھر ہمارا طرز عمل بھی قریبی عزیزوں کا سا ہونا چاہیے اور ہمیں اس قوم کی مدد کرنی چاہیے۔ اس بیل آؤٹ کا میدان (وسطی کییف میں ہونے والے احتجاج) یا یوکرائن کے ساتھ یورپی مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘

امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے سابق جاسوس ایڈورڈ سنوڈن
امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے سابق جاسوس ایڈورڈ سنوڈنتصویر: picture alliance/AP Photo

پوٹن نے اس امر کا اعتراف کیا کہ یوکرائن کی کریڈٹ ریٹنگ بہت اچھی نہیں ہے تاہم اُنہوں نے کہا کہ وہ اس سابق سوویت جمہوریہ کی صنعت کی مقابلہ بازی کی صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں۔ پوٹن کے مطابق یوکرائن کے لیے روسی گیس کی قیمتوں میں کمی ایک عارضی اقدام ہے تاہم اُنہیں امید ہے کہ توانائی کے شعبے میں دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان کوئی طویل المیعاد اتفاقِ رائے بھی ہو جائے گا۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس موقع پر پوٹن نے اس سوال کا براہِ راست جواب دینے سے گریز کیا کہ کیوں وہ یوکرائن کو روس، قزاقستان اور بیلا روس کے ساتھ کسٹمز یونین میں شمولیت کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ روس ان ممالک پر مشتمل ایک بڑا تجارتی اور سیاسی بلاک وجود میں لانے کا خواہاں ہے۔

اس نیوز کانفرنس میں روس بھر سے آئے ہوئے سینکڑوں صحافی شریک تھے اور اس کی کارروائی براہِ راست ملک بھر میں دکھائی گئی۔ ایک شاندار سُوٹ میں ملبوس اکسٹھ سالہ صدر پوٹن سوال و جواب کے سیشن میں بھی بے حد پُر سکون اور پُر اعتماد نظر آئے۔

پوٹن کی بطور صدر تیسری آئینی مدت مئی 2012ء میں شروع ہوئی تھی اور تب سے اُن کی پالیسیاں زیادہ سے زیادہ قدامت پسندی کی آئینہ دار ہیں۔ اُنہوں نے آج کی نیوز کانفرنس کو بھی اِنہی قدامت پسندانہ پالیسیوں پر زور دینے کے لیے استعمال کیا۔ یہ پالیسیاں بڑے شہروں سے باہر کی اُس ورکنگ کلاس کی امنگوں کے مطابق وضع کی گئی ہیں، جو پوٹن کی اصل طاقت ہیں۔ اس کے برعکس بڑے شہروں کا متوسط طبقہ پوٹن کا زیادہ حامی نہیں ہے اور 2011ء کے اواخر اور 2012ء کے اوائل میں اسی طبقے نے پوٹن کے خلاف مظاہرے کیے تھے۔

ایک شاندار سُوٹ میں ملبوس اکسٹھ سالہ صدر پوٹن سوال و جواب کے سیشن میں بھی بے حد پُر سکون اور پُر اعتماد نظر آئے
ایک شاندار سُوٹ میں ملبوس اکسٹھ سالہ صدر پوٹن سوال و جواب کے سیشن میں بھی بے حد پُر سکون اور پُر اعتماد نظر آئےتصویر: picture-alliance/dpa

گزشتہ دو برسوں کے دوران پوٹن روسی آرتھوڈوکس چرچ کے زیادہ قریب ہوئے ہیں اور آج کی نیوز کانفرنس میں پوٹن نے یہ اعتراف کیا کہ وہ ’ایک قدامت پسندانہ‘ سوچ اپنا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ سوچ روس کو آگے لے کر جا رہی ہے۔

اس سال روس نے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے جاسوس ایڈورڈ سنوڈن کو ملک میں سیاسی پناہ دی تھی تاہم آج کی نیوز کانفرنس میں پوٹن نے، جو خفیہ ادارے کے جی بی کے سابق اہلکار رہ چکے ہیں، کہا کہ نہ ہی وہ خود سنوڈن سے ملے ہیں اور نہ ہی روسی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے سنوڈن کے ساتھ رابطہ کیا ہے۔

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پوٹن نے اس نیوز کانفرنس میں این ایس اے کے حوالے سے کہا کہ اگرچہ دہشت گردی کو روکنے کے لیے بڑی تعداد میں لوگوں پر نظر رکھنا ضروری ہے تاہم سیاسی طاقت کو اس طرح کی معلومات جمع کرنے والے اداروں کو مخصوص ضوابط کا تابع بھی بنانا چاہیے۔