1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں

21 فروری 2023

برسلز نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کی ہیں، تاہم پاسداران انقلاب فورسز کو دہشت گرد گروپ قرار نہیں دیا۔ ادھر برطانیہ نے اپنے ملک میں مقیم صحافیوں کو دی جانے والی مبینہ دھمکیوں پر ایک اعلیٰ ایرانی سفارت کار کو طلب کر لیا۔

https://p.dw.com/p/4Nm5Q
Ayatollah Khamenei attending a joint graduation ceremony - Tehran
تصویر: SalamPix/abaca/picture alliance

یورپی یونین نے 20 فروری پیر کے روز اسلامی جمہوریہ ایران میں عوامی مظاہروں کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن میں کردار اد کرنے والے تہران کے کئی حکام اور اداروں پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔

حالیہ ہفتوں میں پہلی مرتبہ ایران کے متعدد شہروں میں مظاہرے

ان نئی پابندیوں میں 32 افراد اور دو اہم اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس میں تہذیب و ثقافت کے وزیر، امور دین کی رہنمائی کے وزیر، وزیر تعلیم نیز مظاہروں پر کریک ڈاؤن کی حمایت کرنے والے کئی دیگر سیاستدان اور اہلکار شامل ہیں۔

ایک یورو نصف ملین ایرانی ریال سے بھی زائد کے برابر ہو گیا

تازہ ترین پابندیوں کے نتیجے میں ایران کے مجموعی طور پر 196 افراد اور 33 ادارے متاثر ہوں گے۔

دہشت گرد قرار نہ دیا جائے، ایرانی محافظین انقلاب کا یورپی یونین کو انتباہ

تاہم یورپی یونین ایران کے خصوصی پاسداران انقلاب فورسز کو دہشت گرد گروپ قرار دینے کے اقدام کے خلاف فیصلہ کیا۔

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد برسلز میں کہا کہ ''یورپی یونین میں ہمارے پاس ابھی تک پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔''

یورپی یونین کے اعلانات کے فوری بعد برطانیہ نے ایران سے متعلق اپنی پابندیوں کی فہرست میں آٹھ نئے عہدیداروں کا اضافہ کیا۔

 برطانیہ نے اپنی نئی پابندیوں میں ملک کے بعض ججوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جن کے بارے میں لندن کا کہنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔

ایران انٹرنیشنل ٹی وی کا دھمکیوں کے سبب لندن چھوڑنے کا فیصلہ

ایک اہم پیش رفت کے تحت برطانوی حکومت نے لندن میں ایران کے سب سے سینیئر سفارت کار کو برطانیہ میں رہنے والے صحافیوں کے خلاف سنگین دھمکیوں پر طلب کرلیا۔

Belgien Protest von Exil-Iranern in Brüssel
تازہ مظاہرے محمد مہدی کرامی اور محمد حسینی کی پھانسیوں کے خلاف بطور احتجاج شروع ہوئے، جنہیں جنوری میں پھانسی دی گئی تھیتصویر: Johanna Geron/REUTERS

اس سے پہلے ہفتے کے روز ایرانی حکومت پر تنقید کرنے والے لندن میں واقع ایک ٹیلیویژن اسٹیشن نے کہا تھا کہ وہ تہران کی جانب سے ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے اپنے اسٹوڈیوز کو امریکہ منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے ایک بیان میں کہا کہ ''میں برطانیہ میں مقیم صحافیوں کی زندگیوں کو ایرانی حکومت کی جانب سے لاحق خطرات سے کافی پریشان ہوں اور آج میں نے تہران کے نمائندے کو طلب کر کے واضح کر دیا ہے کہ اسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔''

انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا، ''ہم نے بچوں سمیت ایرانی عوام پر جبر کرنے اور قتل کرنے میں ملوث ہونے پر حکومتی ارکان پر بھی پابندی عائد کی ہے۔ ایران کی دھمکیوں کو بغیر چیلنج کیے کبھی بھی نہیں چھوڑا جائے گا۔''

ایک بیان کے مطابق لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایران انٹرنیشنل ٹی وی نے تہران کی حمایت یافتہ دھمکیوں کے بعد دارالحکومت لندن میں اپنے اسٹوڈیوز کو نا چاہتے ہوئے بھی بند کر دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حفاظتی خدشات کے سبب براڈکاسٹر عملے اور آس پاس کے لوگوں کی حفاظت ممکن نہیں تھی، اس لیے یہ مشکل قدم اٹھانا پڑا۔

گزشتہ ماہ ایران نے دوہری برطانوی ایرانی شہریت کے حامل سابق ایرانی نائب وزیر دفاع کو برطانیہ کے لیے جاسوسی کا جرم ثابت ہونے پر پھانسی دے دی تھی۔

ایران میں پھر سے مظاہرے شروع

ایران میں حالیہ مہینوں میں پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے مظاہروں کی ایک لہر چل پڑی، جس کی وجہ سے  ملک بھر میں بدامنی کا ماحول رہا۔

اس میں تھوڑے وقفے کے بعد مظاہرین کی جانب سے گزشتہ ہفتے ایران کے کئی شہروں میں پھر سے مارچ شروع کیا۔ اس بار یہ مظاہرے محمد مہدی کرامی اور محمد حسینی کی پھانسیوں کے خلاف بطور احتجاج شروع ہوئے، جنہیں جنوری میں پھانسی دی گئی تھی۔

ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق مظاہروں میں اب تک کم از کم 529 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ حکام نے 19,700 سے زیادہ افراد کو حراست میں بھی لیا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے)

ہیڈ اسکارف، ترک خواتین کے لیے بھی بڑا مسئلہ